Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کانٹوں کا تاج

***معصوم مرادآبادی***
راہول گاندھی کے سر پر کانگریس کی صدارت کا تاج ایک ایسے موقع پر رکھاگیا ہے، جب یہ پارٹی اپنی تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزررہی ہے۔ 132برسوں سے ہندوستانی سیاست میں اپنا سکہ چلانے والی کانگریس پارٹی کو آج داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ وہ پارٹی جس نے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی اور آزادی کے بعد بیشتر عرصے ملک پر حکمرانی کی آج وہ نہ صرف مرکز کے اقتدار سے محروم ہے بلکہ صوبائی سطح پر بھی اس کی نمائندگی بہت کم ہوگئی ہے۔کانگریس کی جگہ آج بی جے پی نے لے لی ہے جو نہ صرف مرکز میں برسراقتدار ہے بلکہ ملک کے 19صوبوں میں اس کی حکومت ہے۔ یہ وہی بی جے پی ہے جس کی کسی زمانے میں لوک سبھا کے اندر 2نشستیں ہو اکرتی تھیں لیکن آج وہ 282ممبران کے ساتھ پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہے اور ملک کے سیاہ وسفید کی مالک ہے۔ کسی زمانے میں 400سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی کانگریس کی آج لوک سبھا میں محض 47نشستیں ہیں اور حکمراں جماعت نے اسے اس قابل بھی نہیں گردانا کہ اس کو اپوزیشن لیڈر کی کرسی دے سکے۔ حکمراں بی جے پی کی کانگریس پارٹی سے مخالفت محض سیاسی بنیادوں تک محدود نہیں بلکہ بی جے پی نے ہندوستان کو ’کانگریس مکت‘ کرنے کا نعرہ دے رکھا ہے اور وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے نہ صرف یہ کہ ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگارہی ہے بلکہ وہ ہتھکنڈے بھی اختیار کئے جارہے ہیں جو سیاست کے میدان میں بُرے سمجھے جاتے ہیں۔ 
راہول گاندھی نے اب سے 13برس پہلے جب لوک سبھا ممبر کے طورپر سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا تو کوئی بھی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ محدود تھی اور انہیں سیاسی داؤ پیچ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس دوران ان کی قیادت میں لڑے گئے کئی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں پے درپے شکستوں کے بعد یہ یقین ہوچلا تھا کہ راہول گاندھی کانگریس کی ناؤ پار نہیں لگاپائیں گے۔ 2014کے عام انتخابات میں کانگریس کی انتخابی مہم پوری طرح راہول گاندھی پرمنحصر تھی اور وہی بی جے پی کے وزیراعظم کے امیدوار نریندرمودی کو ٹکر دے رہے تھے لیکن انتخابی نتائج کے بعد یہ محسوس ہوا کہ راہول اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان کی قیادت میں لڑے گئے اس الیکشن میں پارٹی اپنی تاریخ کی سب سے بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ راہول گاندھی نریندرمودی کے مقابلے میں ایک ناکام مقرر ثابت ہوئے۔ اس ناکامی سے لوگوں کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ راہول گاندھی کانگریس کی ناؤ پار نہیں لگاپائیں گے اسی لئے انکی والدہ سونیاگاندھی نے اپنی خرابی صحت کے باوجود کانگریس کی کمان اپنے ہاتھوں میں رکھی اور راہول گاندھی نائب صدر کے طورپر اپنا کام انجام دیتے رہے۔ بی جے پی نے راہول گاندھی کی سیاسی اہمیت کو کم کرنے کیلئے انہیں ’پپو‘تک کہنا شروع کردیا لیکن گجرات کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران راہول گاندھی نے کانگریس کی لڑائی اپنے اکیلے دم پر لڑ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ وزیراعظم نریندرمودی کو ٹکر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے گجرات میں بی جے پی کے 22برس کے اقتدار کی پول کھول دی اور گجرات کے نام نہاد ترقیاتی ماڈل کو بے نقاب کردیا۔ راہول گاندھی کے حملے اتنے منظم اور منصوبہ بند تھے کہ بی جے پی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہوںنے بہت صبروتحمل کے ساتھ گجرات کے انتخابی میدان میں وزیراعظم نریندرمودی اور ان کی پارٹی کے جارحانہ حملوں کا جواب صبر وتحمل کے ساتھ دیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج کیا برآمد ہوئے اور راہول کی اتنی محنت کے باوجود کانگریس وہاں حکومت سازی کے لائق سیٹیں نہیں لاپائی، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ راہول گاندھی اب وزیراعظم نریندرمودی کو براہ راست چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ حالانکہ ان کی اصل صلاحیتوں کا امتحان 2019کے عام انتخابات کے دوران ہوگا لیکن اس سے قبل کئی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں انکی سخت آزمائش ہونی باقی ہے۔ گجرات اور ہماچل پردیش کے بعد آئندہ چند مہینوں میں کرناٹک، میگھالیہ ، میزورم ، ناگالینڈ اور پھر راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جیسے صوبوں کے انتخابات ہوں گے۔ ایسے میں آئندہ کچھ ماہ کے دوران راہول گاندھی کو ایک ایسا تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوگا جو بی جے پی کو چیلنج دے سکے۔ راہول گاندھی کے سامنے سب سے بڑی چنوتی یہ ہے کہ وہ سیکولرزم، سوشلزم اور سماجی انصاف جیسے اصولوں پر گامزن ہوکر کانگریس کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلائیں۔ ملک کا نوجوان طبقہ جسے وزیراعظم نریندرمودی نے 2014 کے انتخابات میں سبز باغ دکھائے تھے، وہ بڑی امیدوں کے ساتھ راہول گاندھی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ مودی سرکا رکی ناقص اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کے اندر بے روزگاری، مہنگائی اور لوٹ کھسوٹ میں اضافہ ہوا ہے اور عوام کے اندر شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ راہول گاندھی کیلئے دوسرا سب سے بڑا چیلنج ان سیکولر قدروں کو محفوظ رکھنا ہے جنہیں انکی پارٹی میں اب دوئم درجے کی شے سمجھا جانے لگا ہے۔ گجرات کے اسمبلی انتخابات میں جس طرح راہول گاندھی نے 2درجن سے زیادہ مندروں کے درشن کئے اور خود کو جنیو پہننے والے برہمن کے روپ میں پیش کیا، اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کانگریس پارٹی کا ووٹ بینک کسی ایک مذہب یا فرقے تک محدود نہیں اور یہ پارٹی اپنی سیکولر اقدار کی وجہ سے تمام ہندوستانیوں میں مقبول رہی ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اسکے زوال کا آغاز اسی وقت ہوا تھا جب اس نے بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو اچکنے کی کوشش کی اور اس میں اپنے ہاتھ جلالئے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں پچھلے 28برسوں سے اقتدار سے باہر ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس پارٹی نے وہاں بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کی مخالفت کرنے کی بجائے خود اس سیاست کا حصہ بننے کی کوشش کی۔ 
  47سالہ راہول گاندھی کانگریس پارٹی کے 60ویں صدر بنے ہیں اور وہ اس عہدے پر براجمان ہونے والے نہرو خاندان کے چھٹے فرد ہیں۔ صدارتی انتخاب میں کوئی ان کا مدمقابل نہیں تھا ، لہٰذا انہیں پارٹی کا اگلا صدر بنانے کا اعلان کردیاگیا۔ راہول گاندھی کانگریس کی صدارت کا تاج پہننے کے بعد سب سے پہلے سابق صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ سے آشیرواد لینے گئے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اگر وہ واقعی پارٹی کے سینیئر لیڈروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاکر آگے بڑھیں گے اور پارٹی میں موجود چاپلوسوں کو کنارے لگاکر اچھے اور ایماندار کارکنوں کو آگے بڑھائیں گے تو یقینا انکی راہ آسان ہوگی۔ کانگریس پارٹی کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں چاپلوسوں اور حاشیہ برداروں کا دبدبہ ہے جو پارٹی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ یہ لوگ پارٹی قیادت کی کاسہ لیسی کرکے عہدے اور اقتدار حاصل کرتے ہیں اور عام کارکنوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔کانگریس لیڈروں کے اس طرز عمل نے
 آج پارٹی کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ امید ہے راہول گاندھی سب سے پہلے کانگریس کو ایسے ناکارہ لوگوں سے پاک کریں گے اور پارٹی کو ایک نئی توانائی بخشنے کیلئے زمینی سطح پر اس کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط بنائیں گے۔ 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں