رضوان السید۔ الشرق الاوسط
ترجیحات سے ہماری مراد عربوں کے بنیادی مفادات ہیں۔ عرب سیاستداں ، دانشور اور ذمہ داران عوامی و سرکاری سطحوں پر قومی ترجیحات کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔ بحث و مباحثے ، گفت و شنید اور ربط و ضبط کے ذریعے قومی ترجیحات کی نشاندہی میں ہمارے دانشور اور سیاستداں لگے ہوئے ہیں۔
گزشتہ 3برس سے عربوں کی پہلی ترجیح عرب ریاست ہے۔ اسے کس طرح سے بچایا جائے ، امن و استحکام کس طرح بحال کیا اور رکھا جائے؟تعمیراتی و ترقیاتی قوانین کی جہت میں تدریجی تبدیلی کس طرح لائی جائے، عوام اور حکام کے درمیان اعتبار کے رشتے کس طرح مضبوط کئے جائیں؟
2018ءکے دوران بھی عربوں کی اولین ترجیح یہی ہے ۔ باعث اس کا یہ ہے کہ عرب دنیا میں خلفشار سے دوچار ممالک 2طرح کے ہیں ۔ ایک تو وہ ہیں جہاں ریاست کا وجود ہی خطرات کے دائرے میں آیا ہوا ہے ، دوسرے ممالک وہ ہیں جہاں کے ریاستی نظام خارجی طاقتوں کی طرف جھک رہے ہیں۔ جھکاو اپنے نظام کی بقاکی خاطر مدد کیلئے بھی ہے اور بیرونی طاقتوں کے ساتھ داخلی سیاستدانوں کے مفادات کی وجہ سے بھی ہے۔یہ باتیں لیبیا، عراق، شام اور لبنان پر لاگو ہورہی ہیں۔ تیونس سمیت مذکورہ چاروں ممالک میں تبدیلی کی کوششیں ہوئیں۔
عرب بہار سے قبل لبنان میں عوامی ہیجان دیکھنے میں آیا تھا۔ اب لبنان کو بحیثیت ریاست کے کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا تاہم وہاں برسرپیکار اہم سیاستداں ایرانی گروپ کے سائبان تلے آنے نہ آنے کے رجحان کے حوالے سے شدومد کا شکار ہیں۔لبنان کے برسرپیکار سیاستدانوں کو گمان ہے کہ ایران کی طرف جھکا¶ کی بدولت ان کے اقتدار کو استحکام نصیب ہوگا۔ یہ اسلئے ممکن ہوگا کیونکہ ایران کی حمایت یافتہ مسلح جماعت ”حزب اللہ “ان سے راضی ہوگی۔ اس کی رضا ان کی کامیابی کی ضمانت بنے گی۔
جہاں تک لیبیاکا تعلق ہے تو وہاں تفرقہ و تقسیم کے باعث ریاست کا وجود ہی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔مغربی لیبیا میں خصوصاً اور دیگر علاقوں میں عموماً اسلامائزیشن کی نام نہاد دسیوں عسکری تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ وہاں القاعدہ اور داعش کے کیمپ بھی اپنا کام کررہے ہیں۔ جو بات لیبیاپر لاگو ہوتی ہے لگ بھگ ویسا ہی حال شام کا بھی ہے۔ شامی نظام روس اور ایران کی فرقہ پرست ملیشیا¶ں کے بل پر زندہ بچ جانے والے عوام کو اپنا غلام بنانے کے درپے ہے۔ شامی عوام کا بڑا طبقہ یا توہلاک ہوچکا ہے یا نقل مکانی کرچکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ روس سمیت متعدد فریق شام کی تقسیم قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔
امریکہ کرد عرب فوج قائم کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس فوج کا نگراں ہوگا۔ ترکی بھی شمالی شام میں عرب فوج قائم کئے ہوئے ہے اور وہ اس کے نگراں بنے ہوئے ہے جس سے وہ کردوں کو زیر کرنے کا کام لے رہے ہیں۔ شام میں روسی ، امریکی، ایرانی اور ترکی اڈوں کے قیام کا تصور صاف بتا رہا ہے کہ شامی بحران کتنا گہرا ہے اور کس قدر کثیر جہتی ہے۔
شام کا مخمصہ ریاستی بقا کے تناظر میں لیبیا سے کم درجے کا ہے جبکہ عراق کا بحران لبنان کے مقابلے میں کم درجے کا ہے۔ لبنان کا معاملہ قدرے مختلف ہے جہاں 14آذادمحاذ سقوط کا شکار ہوچکا ہے اور اب لبنان کے تمام فریق ایران کی تابعداری میں لگے ہوئے ہیں۔ عراقی مختلف ہیں۔ وہ اپنی باگ ڈور ایران کے ہاتھ میں دینے پر آمادہ نہیں البتہ اقتدار اور قدری وسائل پر کنٹرول کی کشمکش نقطہ عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔
تیونس کی بابت یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آیا تبدیلی کے بعد وہاں کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے ؟ جواب میں یہی کہا جاسکے گا کہ کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ لیبیا کے باعث تیونس میں دہشتگردی کی گتھی جوں کی توں قائم ہے۔ سماجی بحران کسی نہ کسی شکل میں ہر روز سرابھارلیتا ہے۔
یمن کا معاملہ عجیب و غریب ہے ۔ حوثیوں کے ہاتھو ں علی عبداللہ صالح کے قتل کے بعد قدیم حکمرانوں کی اقتدار میں واپسی کی بحث اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ایران یمن کے انتہائی اقلیتی گروپ کی پشت پناہی کرکے اقتدار پر قبضے کا چکر چلائے ہوئے ہے۔
اگر ہم عرب بہار کے مابعد کی صورتحال پر توجہ دیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ عربوں کی اولین ترجیح قومی عرب ریاست کو درپیش بحرانوں سے نجات دلانا ہے۔ اس کیلئے 2نکاتی پروگرام پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔اول یہ کہ تمام عرب اپنے اندرونی امور میں خارجی ، سیاسی و عسکری مداخلت کی مشترکہ مزاحمت کریں۔ دوم یہ کہ اپنے یہاں تفرقہ و تقسیم کو جڑ پکڑنے سے روکیں ۔ عربوں کے اندرونی امور میں مداخلت کرنے والے اہم فریق ایران وروس ، امریکہ اور ترک ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭