مکہ مکرمہ ..... مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر سعود الشریم نے واضح کیا ہے کہ بعض لوگ گناہوں کو معمولی سمجھ کر معصیت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ گناہ کوئی بھی معمولی نہیں ہوتا۔ہر گناہ سے پرہیز کریں۔ اغیار کے ساتھ معاملات میں توازن پیدا کریں۔ انکے ساتھ اچھا سلوک کریں۔حسن اخلاق اور حسن معاشرت کو اپنی شناخت بنائیں۔ اعتبار کے رشتے قائم کریں، منہدم نہیں۔ حسن ظن کو فروغ دیں، بدظنی کو نہیں۔ ہر حقدار کو اس کا حق ادا کریں۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ انسانی زندگی میں اخلاق کلیدی درجہ رکھتے ہیں۔ انسان کے کردار اور گفتار کا معیار اچھے اخلاق ہی ہیں۔اعلی اخلاق کی بدولت ہی معاملات میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ امام حرم نے کہا کہ حکمت اور معقولیت انسان کو متوازن اور متناسب مقاصد دلاتے ہیں۔ حکمت اور فراست ہی سے انسان کی شخصیت اجاگر ہوتی ہے۔ اخلاق کے ذریعے انسان ہر چیز کو اسکا حق دیتا ہے۔ اس بنیاد پر ہی ہر ایک کو اس کے حجم میں رکھنے کا اہتمام کرتا ہے نہ کسی کا حق مارتا ہے او رنہ ہی حق کی ادائیگی میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ امام حرم نے بتایا کہ گناہوں کو معمولی سمجھنا بہت بری بات ہے۔ یہ نادانی کے باعث ہوں تب مصیبت ہے اور اگر جان بوجھ کر گناہوں کو معمولی سمجھا جائے تو دگنی مصیبت ہے۔ امام حرم نے کہا کہ جو لوگ کسی کا حق جانتے ہوئے اسکا حق مارتے ہیںوہ ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اگر فرد کے ساتھ یہ کام ہو تب برا ہے۔ معاشرے کے ساتھ ہو تو اور زیادہ برا ہے۔ امام حرم نے بتایا کہ لوگ ایسے انسان کو پسند نہیں کرتے جو گناہوں کو معمولی سمجھتے ہوں۔ جو لوگوں کے حقوق کے سلسلے میں لاپروائی برتتا ہو۔ ایسے انسان سے کسی کو انسیت نہیں ہوتی۔ دوسری جانب مسجد نبو ی شریف کے امام و خطیب شیخ عبداللہ البعیجان نے جمعہ کا خطبہ علم اور اسکی اہمیت پر دیا۔ انہوں نے کہاکہ دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کیلئے علم بنیاد کے پتھر کا درجہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اپنا خلیفہ بنایا تو علم کو اس کی بنیاد قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر فرض کی ادائیگی کیلئے علم اور عقل کی شرط رکھی ہوئی ہے۔ علم کے ذریعے ہی انسان اپنے رب کے احکام سمجھتا ہے اور انکی تعمیل کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت جبرئیل علیہ السلام پر پہلی مرتبہ وحی لائے تو اس کا تعلق علم ہی سے تھا۔ اقرا سے وحی کی شروعات ہوئی تھی جس کے معنی ”پڑھو“ کے آتے ہیں۔ قرآن کریم نے ہمیں سیکھنے کی ترغیب دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کوعلوم میں اضافے کی دعا کا حکم دیا ہے۔ علم تربیت کا موثر ترین ذریعہ اور تزکیہ کا معتبر ترین وسیلہ ہے۔ اسکی بدولت انسان فتنوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ آزمائش میں ثابت قدم رہتا ہے۔ مصیبت کے وقت صبر بھی اسکی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ علم اچھائیوں ، اللہ تعالیٰ سے قریب کرنے والے امور اور درجات کی بلندی والے امور کی روشنی دیتا ہے۔ طالب علم کو علوم کی طلب میں شرعی آداب کا لحاظ بھی واجب ہے۔