آپ حقیقی مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں سے ملیں، یہی مسکراہٹ دلوں کی گہرائیوں میں آپ کی محبت ڈال دے گی
* * * ڈاکٹر لئیق اللہ خان۔ جدہ * * *
ہمیں اپنے اچھے اعمال نامے کا بیلنس بڑھانے کیلئے مسکرانا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: کسی بھی بھلائی کو ہرگز حقیر نہ جانو اگرچہ تیرا اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا ہی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں کہ ہم لوگ خود کو مسکراہٹ کا عادی بنائیں ، اسے اپنی شناخت بنائیں کہ جب بھی انسان مسکراتا ہے اسے رب العالمین کی طرف سے مالی صدقے کا ثواب مل جاتا ہے تو کیوں نہ ہم جیب سے کچھ خرچ کئے بغیر آخرت کے بینک بیلنس میں اضافہ کریں۔
ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مسکراتے رہنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا شخص کوئی نہیں دیکھا گیا۔
کن لوگوں کیلئے مسکرائیں؟:
ہمیں اپنی ذات کیلئے مسکرانا چاہئے۔ہم پر ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے آپ کیلئے مسکرائیں، اپنے وجود کو خوشیاں دیں،مسکراہٹ کی بدولت نہ جانے کتنی آفتیں اور کتنی مصیبتیں خود بخود دُور ہوتی رہتی ہیں۔مسکراہٹ بسا اوقات غصے کے برفانی تودوں کو پگھلا دیتی ہے اور غصے کے پہاڑ آپ کیلئے آب ِشیریں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ آپ مسکراہٹ کے جادو کا تجربہ اُس وقت کرسکتے ہیں جب خاندانی مسائل آپ کے اطراف کھڑے ہوئے ہوں۔ آپ اس وقت مسکراکر بہت سارے مسائل چٹکیوں میں حل کرسکتے ہیں۔
منہ بسورنے سے پرہیز کیجئے:
مسکراہٹ کی اہمیت کے باوجود بعض لوگ کبھی نہیں مسکراتے۔آپ جب بھی ان کے چہروں پر نظر ڈالیں گے تو وہ منہ بسورے ہوئے ہی نظر آئیں گے ۔ ایسے لوگ شرپسند ہوتے ہیں یا ان کے دل میں کوئی بیماری گھر کئے ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے اندرون خیر کے چشموں کیلئے بند رہتے ہیں۔ کہہ لیجئے کہ ان کے دلوں پر خیر کیلئے تالے پڑے ہوتے ہیں۔
بعض لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ مسکراہٹ سے ان کی حیثیت کم ہوجائیگی، ان کی ہیبت کم ہوگی ۔یقین کیجئے ایسے لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ عام لوگ اس قسم کی ذہنیت رکھنے والوں سے قریب نہیں بلکہ دور بھاگتے ہیں۔
جریر بن عبداللہ ؓروایت کرتے ہیں کہ جب سے میں مسلمان ہوا ہوں تب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ خندہ روئی سے ہی ملتے ہوئے پایا (متفق علیہ)۔
یقین کیجئے کہ منہ بسورنے اور چہرے بگاڑنے سے حاضرین اور ملنے جلنے والوں کے ساتھ دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں لہذا بہتر ہوگا کہ آپ اپنے افکار اور اپنے جذبات کو کنٹرول کریں اور ضرورت کے وقت ہی چہرے بسورنے کا اہتمام کریں۔
خندہ پیشانی سے پیش آنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا چہرہ خوبصورت بھی ہو، آپ کے خدوخال بہت عمدہ ہوں ...نہیں ہرگز نہیں ۔کبھی انسان خوبصورت ہوتا ہے لیکن خندہ پیشانی کی نعمت سے محروم ہوتا ہے۔ کبھی انسان بدشکل ہوتا ہے لیکن انسیت اور لگاوٹ اس کے چہرے سے باران رحمت کی طرح برستی رہتی ہے۔
آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ آپ لوگوں سے حقیقی مسکراہٹ کے ساتھ پیش آئیں ۔مسکراہٹ کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ آپ اپنے ہونٹوں پر بے جان سی پھیکی مسکراہٹ بکھیر لیں... نہیں ہرگز نہیں ، آپ ایسا کرکے اپنے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ آپ حقیقی مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں سے ملیں۔ یہی مسکراہٹ دوسروں کے دلوں کی گہرائیوں میں آپ کی محبت ڈالنے کی ضامن بنتی ہے۔
مسکراہٹ سے متعلق ہدایات :
« آپ مسکراہٹ کو دوسروں کے دلوں کیلئے عملی قاصد بنائیے۔یہ مسکراہٹ دلوں کی کلید ہے۔یہ آرام اور سکون عطا کرتی ہے۔
« جب آپ محسوس کریں کہ آپ کے سامنے کان بند ہوگئے ہیں اور آپ کا پیغام وصول کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں تو آپ ماحول کو مسکراہٹ بھرے لطیفے سے معطر کرنے کا اہتمام کیجئے۔
« آپ مضحکہ خیز یا ٹھنڈی مسکراہٹ سے بچئے کیونکہ اس قسم کی مسکراہٹ اعتماد کا خون کردیتی ہے اور ملنے جلنے والوں کے ساتھ دیوار کھڑی کردیتی ہے۔
« آپ اپنے عزیز یا اپنے دوست کی مسکراہٹ اور اس کی آنکھوں کی جنبش اور پیشانی کے تیور دیکھ کر پتہ لگائیے کہ اس کے دل میں آپ کیلئے کس قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
« آپ خود کو اس بات کا عادی بنائیں کہ آپ کی مسکراہٹ آپ کے پیغام کے ترسیل کا وسیلہ ہو۔
« آپ خود کو ہنسانے والے لطیفوں سے لطف اٹھانے کا عادی بنائیے تاکہ آپ کبھی کبھی ہنسنے کے عادی رہیں۔
مسکراہٹ کے بارے میں بعض ملفوظات:
٭ ابوحاتم بن حبان ؒ کہتے ہیں:
خندہ پیشانی علماء کا سالن ہے، حکماء کی خصلت ہے کیونکہ خندہ پیشانی سے مخالفت کی آگ ٹھنڈی پڑجاتی ہے، غصے کا ایندھن جل جاتا ہے ، اس سے بغاوت پر آمادہ لوگوں سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ جو لوگ خندہ پیشانی سے ملتے ہیں وہ ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔
٭ عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں :
مجھے یہ حکمت لکھی ہوئی معلوم ہوئی ہے کہ ائے بیٹے ! تمہارا چہرہ سادہ ہونا چاہئے، تمہاری بات خوشگوار ہونی چاہئے، تمہارے لئے ہردلعزیزی اس بات سے بہتر ہے کہ تم لوگوں کو دولت تقسیم کرو۔
٭ سعید بن الخمس کہتے ہیں :
ان سے کہا گیا کہ تمہیں کس چیز نے خوشی بخشی؟ انہوں نے کہا: اے لوگو! خندہ پیشانی سستی شیٔ ہے۔ اس میں نہ دولت خرچ ہوتی ہے اور نہ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ یہ مہنگی ہے انمول ہے۔ یہ دلوں کو جیت لیتی ہے اور نفرت کے اسباب کی بیخ کنی کردیتی ہے۔‘‘
٭ فولٹر کا کہنا ہے :
مسکراہٹ برفانی پہاڑ کو پگھلادیتی ہے، سکون پھیلادیتی ہے، زخم پر مرہم کا کام دیتی ہے، یہ صاف شفاف انسانی تعلقات کی کلید ہے۔
٭ تھائی لینڈ کے حکماء کا کہنا ہے:
مسکراہٹ دوسروں کے دلوں کو فتح کرنے کا مختصر ترین راستہ ہے۔
٭ شیکسپیئر کا کہنا ہے :
مسکراہٹ کے ذریعے سفر طے کرلینا اس بات سے بہتر ہے کہ تلوار کے ذریعے تم راستہ تیار کرو۔
افراد کی صحت اور انسانی معاشروں پر مسکراہٹ کے اتنے سارے عظیم الشان اثرات اور مسکرہٹ کی اس قدر اہمیت معلوم ہوجانے کے بعد ہماری آرزو ہے کہ سب لوگ ہمیشہ مسکراتے رہیں اور صحت و عافیت سلامتی و سکون ان کا نصیب ہو،آمین۔