عبدالرحمان الراشد۔ الشرق الاوسط
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گولہ بارود سے لدی ایمبولینس کے ذریعے خود کش حملے میں 280سے زیادہ افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ یہ حالیہ ایام میں دہشتگردی کی خطرناک وارداتو ںمیں سے ایک ہے۔ طالبان اس کے کرتادھرتا ہیں۔ اس قسم کے بڑے بڑے واقعات افغانستان میں علاقائی اختلافات کو بحران کی منزل میں داخل کردینگے۔ خاص طور پر پاکستان کے خلاف یہ معاملہ سنگین صورتحال پیدا کریگا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دن بدن خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکہ نے اپنے روایتی اتحادی پاکستان پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ برصغیر میں افغانستان اور دہشتگردی کے پیچھے کون ہے۔ کیا اس سے پہلے عراق اور شام میں جس طرح دہشتگردی کو استعمال کیا گیا آیا وہی چیز دہرائی جارہی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی افواہوں اور الزامات کا بازار گرم ہے کہ طالبان کی پشت پر پاکستان ہے۔ کوئی شخص بھی طالبان اور پاکستان کے تعلق کو ثابت نہیں کرسکتا۔ کم از کم صحافی اور اسکالر تو یہ کام کسی بھی شکل میں انجام نہیں دے سکتے۔ افغانستان میںامریکہ کو پہنچنے والا بھاری نقصان اور پاکستان میں تشدد کے چلن نے امریکہ اورپاکستان کے تعلقات کو خراب کردیا ہے۔ دونوں کے تعلقات ایسی منزل میں داخل ہوچکے ہیں جہاں دونوں ملکوں کا تاریخی رشتہ الٹ گیا ہے۔ امریکہ پاکستان کو 4عشروں سے زیادہ عرصے سے اسٹراٹیجک حلیف سمجھتا رہا ہے۔ خاص طور پر سرد جنگ کے زمانے میں ۔ ہندوستان سے علیحدگی کے بعدپاکستان کی سب سے زیادہ مدد کرنے والے ممالک میں امریکہ کانام آتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان الفت کے رشتے انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال نواز شریف کےخلاف بغاوت اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیدا ہونے والے پے درپے حالات کے باعث مایوس کن سی ہوچکی ہے۔ اس صورتحال کے پہلو بہ پہلو افغانستان کی انارکی پاکستان سے متاثر بھی ہوئی ہے اور متاثر بھی کررہی ہے۔
میں ثابت شدہ حقائق کے فقدان کی صورت میں یہ الزام تو نہیں لگا سکتا کہ اس سارے کھیل کا اصل کھلاڑی ایران ہے۔ البتہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بہت سارے شواہد یہی بتا رہے ہیں کہ اس سارے کھیل میں ایران کا ہاتھ ہے۔ ایران افغانستان کے امن و امان اور میڈیا پر اپنا اثر و نفوذ قائم کئے ہوئے ہے۔ ایرا ن پاکستان میں بھی اثر و نفوذ استوار کئے ہوئے ہے۔ بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ایران کے تعلقات ویسے ہی ہیں جیسا کہ القاعدہ کے ساتھ ایران کے گہرے تعلقات استوار ہیں۔ ان دنوںبھی القاعدہ تنظیم کے نمایاں رہنما ایران ہی میں سکونت پذیر ہیں۔ یہاں ہمیں ان ایرانیوں کے اقبالی بیانات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے جنہوں نے تسلیم کیا کہ ایران پر امریکی لشکر کشی کے بعد عراقی تحریک مزاحمت کا وہ حصہ تھے۔بعد میں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ شام میں دہشتگرد تنظیموں سے پاسداران انقلاب اپنے تعلقات استوار کئے ہوئے تھے۔
پاکستان طالبان کے خلاف موثر اقدامات نہ کرکے خودکو حصار میں لائے جانے کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری کو مطمئن کرنے والے ایسے اقدامات نہیں کئے جن سے ثابت ہوتا ہو کہ وہ طالبان سے برسر پیکار ہیں۔ طالبان ان دنوں داعش اور القاعدہ سے زیادہ پرخطر اور زیادہ تشدد پسند ہوگئے ہیں۔ اس سے اس حقیقت کی نفی نہیں کی جاسکتی کہ ا فغانستان کے بعد دہشتگرد تنظیموں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہی ہے۔
پاکستان ہندوستان کی جانب سے علیحدگی پسند مسلح اسلامی جماعتوں کی پشت پناہی کے الزامات کے بھی نرغے میں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ قطر نے طالبان کو قابو کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ وجہ یہ ہے کہ قطر کے حکام لبنان میں حزب اللہ، غزہ میں حماس اور شام میں النصر محاذ جیسی انتہا پسند جماعتو ںسے تعلقات کے باب میں جو حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے وہ مذکورہ جماعتوں کو قابو کرنے کی نہیں بلکہ ان سے سیاسی مفادات کے حصول کی ہے۔
اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ طالبان دہشتگرد تنظیم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ افغانستان کے متعدد علاقوں اور قبائل پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ طالبان کے مسئلے کا سیاسی یا عسکری حل سب سے زیادہ پاکستان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان دونوں پر قادر ہے۔ موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے پاکستان کے پاس یہ آخری پتہ ہے جس سے وہ کھیل سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭