انجام کار وہی ہوا جس کا ہونا ٹھہر گیا تھا۔ یہ اسی صدا کا استمرار ہے جو الٰہ آباد کے خطبے میں بلند ہوئی تھی اور صرف ایک عشرہ بعد لاہور کے منٹو پارک سے طلب بن کر اٹھی تھی۔ تاریخ کی کہیں سے بھی ورق گردانی کرلیں، ہند کو قرار تبھی رہا جب اس پر مسلمان حاکم رہے۔ کوچوں ، بازاروں میں امن و سکون رہا۔ ہر د یہہ ، ہر قصبے کا معمول تھا۔ غروب آفتاب کے بعد چوکیدار شاہراہ کی نکڑ پر نصب لالٹین میں مٹی کا تیل ڈالتا اور پھر اس کی بتی پر شعلہ رکھ دیتا۔ زرد روشنی کا لرزتا نحیف وجود راہ کی تاریکی کو خاصا گھٹا دیتا۔ شب بیدار چوکیدار ساری رات اپنے عصا سے کوچوں کے فرش بجاتا آوازیں لگاتا رہتا ’’جاگتے رہو‘‘ ۔سکون تھا، امن تھا ، کبھی کبھار کوئی جرم ہوتا بھی تو مجرم کی گرفتاری میں ضیاعِ وقت نہ ہوتا۔ چوراہے میں سزا دیدی جاتی اور اطمینان لوٹ آتا۔ یہی دستور رہا جب تک ہندوستان پر مسلم حکمران رہے۔ ہندو ریاستیں اور راجواڑے بھی پایۂ تخت دہلی کے باجگذار بن کر امن و سکون کی نیند سوتے تھے۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد تاریخ ہند کے اوراق خون میں شرابور ہونا شروع ہوئے۔
ہندو اکثریت نے پاکستان ہجرت نہ کر جانیوالے مسلمانوں کی نسل کشی کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے فسادات 1964ء میں کلکتہ میں ہوئے۔ ہندوؤں نے مسلمان آبادی پر حملوں کا آغاز کیا۔ پولیس اور حکومتی اہلکار خاموش تماشائی بنے رہے۔ ایک سو سے زیادہ مسلمانوں کا قتل ہوا جبکہ 438 زخمی ہوکر اسپتالوں میں جا پڑے۔70 ہزار اپنے گھر بار ترک کرکے دوسرے شہروں میں جا بسے جبکہ 55 ہزار کو فوج نے پناہ دی۔ مغربی بنگال میں ہونیوالے مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر ہو تو آسام کے قصبے نیلی میں 1983ء میں ہونے والی نسل کشی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی بھی جگہ پر انسانوں کا سب بڑا قتل عام تھا۔ 1800 بنگالی النسل مسلمان بچے ، عورتیں اور بوڑھے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ نرنیدر مودی کے شہرگجرات میں 1969ء سے 1989ء تک کی 2دہائیوں کے دوران ہونے والا مسلمانوں کا قتل عام ہندکی جمہوریت اور انسان دوستی کے نعروں کا ہمیشہ مذاق اڑاتا رہے گا۔
ایک فسادکا آغاز 1969ء میں ہوا جب 630 مسلمان موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ 1970ء میں بھیونڈی اور جلگاؤں میں مسلمانوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام ہوا اور ان کی جائیدادیں جلادی گئیں۔ گودھرا میں ریل گاڑی کی آتش زدگی سے آغاز کرنے والے قتل عام میں مسلمان آبادی پر ہر ظلم ڈھایا گیا۔ عورتوں کی عزت لوٹنے کے بعد انہیں جلادیا گیا یا موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔ 2 ہزار مسلمان مارے گئے جبکہ 20 ہزار نقل مکانی کرگئے۔ حکومتی اہلکاروں نے ہندو بلوائیوںکو مسلمان تاجروں کے کاروبار اور رہائش کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے کسی بھی طرح کی مداخلت کرنے سے انکار کردیا۔ امریکہ نے انہیں دہشتگرد قرار دے کر ان کا وہاں داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد 1992ء میں ممبئی میں ہونے والے مسلم کش فسادات بھی تاریخ ہند کے صفحات پر ایک شرمناک دھبہ رہیں گے۔ ان کی منصوبہ بندی بال ٹھاکرے کی شیو سینا نے کی تھی۔ دنوں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا۔پولیس اور حکومت تماشا دیکھتی رہیں۔ 1980ء میں مراد آبادمیں مسلم کش فسادات پھوٹے۔ ڈھائی ہزار مسلمان جان ہار گئے۔ خونِ خاک نشیناں رزقِ خاک ہوا۔حسب معمول نہ قاتل ملے نہ دادگاہ لگی۔ کہاں کہاں کا ذکر کیا جائے۔ اشک کم پڑے ہیں۔ 1982ء میں بھاگلپور میں ایک ہزار مسلمانوں کی جان لی گئی۔1987ء کا ہوشیار پور کا قتل عام بھی تاریخ ہند کے اوراق پر سیاہ داغ ہے۔ یو پی کے شہر میرٹھ میں دن دہاڑے 42 مسلمان بچوں کو ریاستی پولیس اٹھا کرلے گئی۔ مارکر نہر میں پھینک دیا۔ 19 نامزد مجرموں میں سے 16 گرفتار ہوئے۔ مقدمہ ابھی تک رینگ رہا ہے۔گزشتہ برس انتہائی دلفریب اور حسین تن و توش کے مالک مسلمان نویدپٹھان کو دن دہاڑے وشوا ہند وپریشد کے 11 غنڈوں نے ایک چائے کے کھابے سے اٹھایا ، اسے مارتے مارتے سڑک پر لا گرایا اور تلواروں اور لاٹھیوں سے اس کا بدن چیر دیا۔ خون کے تالاب میں اس کا بے جان بدن چھوڑ کر موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کرفرار ہوگئے۔ مدعی کون بنتا؟ درجنوں چشم دید گواہوں کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ ایف آئی آر ہی نہ کٹی تو انجام کار وہی ہوا جس کا ہونا ٹھہر گیا تھا۔
کشمیر کے نائب مفتی اعظم، اعظم ناصر الاسلام نے گزشتہ منگل کو ہندوستانی حکومت پر یہ کہہ کر بم گرادیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا ایک علیحدہ وطن حاصل کرنا چاہیئے۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو قابل رحم حالات میں زندگی گزارتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو خوف و ہراس میں رکھا جارہا ہے۔ جہاد کے الزامات اور گئو رکھشا جیسے عناصر کی وجہ سے وہ ہمیشہ دباؤ میں رہتے ہیں۔نائب مفتی اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی دوسری بڑی ہے۔ پاکستان صرف 10 کروڑ آبادی کے لیے بن گیا تھا۔ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں ایسے ہی مصائب کا سامنا کرناپڑتا رہے تو انہیں اپنے لئے ایک نیا ملک بنانا پڑے گا۔ اعظم ناصر نے یہ بات سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں کہی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستانی حکومت مسلمانوں کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہی اور یہ کہ ہندوستانی مسلمان قابل رحم حالات میں رہ رہے ہیں۔ اس مسئلے کا حل ہندوستان سے علیحدگی میں ہی ہے۔ نائب مفتی اعظم ، اعظم ناصر نے کہاکہ ہندوستان کی ایک ارب 30 کروڑ آبادی میں 14 فیصد مسلمان ہیں جبکہ ہندو 80 فیصد ہیں۔ نائب مفتی اعظم جموں و کشمیر پرسنل لاء بورڈ کے نائب چیئرمین بھی ہیں۔ انہیں ان کے والد مفتی اعظم بشیر الدین نے 2012ء میں اسلامی شرعی عدالت عظمیٰ کیلئے اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ ان کے پاس عربی اور قانون کی پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں ہیں۔ 2006ء تک ابوظبی حکومت کی وزارت عدل کیلئے قانونی مشیر رہے، بعد ازاں وہاں سے مستعفی ہوکر انہوں نے اپنا ذاتی قانونی مشاورتی دفتر قائم کرلیا تھا۔ 2000ء میں ان کا تقرر جموں و کشمیر کی سپریم شرعی عدالت میں نائب مفتی اعظم کے طور پر ہوا تھا۔ تو اب بات سرگوشیوں سے بلند ہوکر منڈیروں تک آپہنچی ہے۔ خطبہء الٰہ آباد اور قرارداد پاکستان پر ہی بات ختم نہیں ہوئی تھی۔ اسے استمرار ملنا تھا اور استمرار کا آغاز ہوچکا۔