Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محبت ..... قطر کے انداز پر

قطر نظرانداز ہونے پر بچوں کی طرح چیخ و پکار میں لگا ہوا ہے

* * * * *

عبدالرحمان الراشد - الشرق الاوسط
  قطر کے ساتھ اختلاف کی باتیں اکثر و بیشتر صرف ایک فریق ہی کی جانب سے کہی اور سنی جارہی ہیں۔ قطری عہدیدار اپنے بیانات انٹرویوز اور اشتہارات میں وقتاً فوقتاً بلکہ اکثر و بیشتر اسکا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ جہاں تک قطر کے حریفوں کا معاملہ ہے تو وہ اس قسم کی باتیں کرنے کے بجائے ایران، یمن اور اپنے علاقائی و بین الاقوامی تعلقات جیسے مسائل میں مصروف ہوگئے ہیں۔ قطر کے حکمراں،  سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کے اس تجاہل سے نالاں ہیں۔ وہ ان ممالک کے ساتھ اپنے اختلاف کو زندہ رکھنے کی ٹھانے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی رائے عامہ مذکورہ ملکوں کیساتھ قطر کے اختلاف کی کہانیاں سنتی رہے۔ قطر کے حکمرانوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ دنیا کا ہر ملک اپنے دوست بنانے کے سلسلے میں قطعاً آزاد ہے۔ یہ اسکا ریاستی حق ہے۔
     ہر ملک اس بات کا مجاز ہے کہ وہ کس کو اپنے بازارو ں میں آنے کی اجازت دے اور کس کو روکے۔ مثلاً سعودی عرب کی ڈیری کمپنی المراعی کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ قطر میں اپنی مصنوعات فروخت کرے یا نہ کرے۔ متحدہ عرب امارات کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ قطری کمپنیوں کو اپنے حصص اپنے یہاں فروخت کرنے کی اجازت نہ دے۔ بحرین اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ قطر کی فضائیہ کو اپنی فضائی حدود سے پرواز کرنے پر پابندی عائد کردے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ امریکہ نے کیوبا کے ساتھ کیا۔ کیوبا امریکی ریاست فلوریڈا سے صرف 100میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ امریکہ 50برس سے زیادہ عرصے سے کیوبا کا بائیکاٹ کئے رہا۔ سوال یہ ہے کہ جو کام امریکہ نے کیوبا کے ساتھ کیا سعودی عرب ، امارات، بحرین اور مصر وہی عمل قطر کیساتھ کیوں نہیں دہرا سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ اور کیوبا کا معاملہ قطر اور مبینہ عرب ممالک کے معاملے سے مختلف ہے۔ کیوبا غریب ملک ہے جبکہ قطر کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اس کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ ہندوستان کے باشندوں کو آسانی سے کھلا پلا سکتا ہے۔
     قطر کے حکمراں میڈیا کی توجہ مبذول کرانے اور میڈیا کو مشتعل کرنے کیلئے ایک کہانی بار بار دہرا رہے ہیں۔ قطری حکمراں دعویٰ کررہے ہیں کہ سعودی عرب ، امارات، مصر اور بحرین قطر پر لشکر کشی اور حکومت کا تختہ الٹ کر من پسند امیر قطر متعین کرنے کا عزم کرچکے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ قطر کے حکمرانوں نے یہ کہانی اپنے انداز سے مختلف ممالک میں مختلف اسلوب میں من پسند طریقے سے بیان کی۔  اس تناظر میں ایرانی عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ قطر پر لشکر کشی ہونے ہی والی تھی کہ ایران نے اسے روک دیا۔ قطری حکمرانوں نے ترکی پہنچ کر یہی قصہ دہرایا۔ ترکوں نے اعلان کیا کہ انکی بدولت قطر پر لشکر کشی کی سازش عملی جامہ نہ پہن سکی۔ قطر کے وزیر دفاع نے واشنگٹن پہنچ کر کہا کہ اگر امریکہ نہ ہوتا تو سعودی عرب اور امارات کی فوجیں قطر میں گھس گئی ہوتیں۔ امریکیوں نے کہا کہ انہیں قطر کے خلاف فوجی تیاریوں کی سن گن ملی ہے۔ ظاہر ہے ہم اس سلسلے کے سب سے پہلے بیان کو بھی فراموش نہیں کرسکتے جو امیر کویت سے منسوب ہے۔ انہوں نے ستمبر2017ء کے شروع میں واشنگٹن میں کہا تھا کہ ’’ہم فوجی مداخلت روکنے میں کامیاب رہے‘‘۔
    ایسا لگتا ہے کہ  قطری ایک ہی قصہ مختلف مقامات پر ہر جگہ کے حکمرانوں کے مناسب حال انداز میں بیان کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ ہر حکومت کو اپنے بحران کا حصہ بنالیں اور اسے ہیرو کی حیثیت دیکر اسکی ہمدردیاں سمیٹ لیں۔ حق او رسچ یہ ہے کہ قطر پر لشکر کشی کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ ہی کوئی کوشش ہوئی۔ اسلئے نہیں کہ مملکت اور امارات قطری قائدین کے احترام کے جذبے سے سرشار ہوں۔ نہیں بلکہ انہیں معلوم ہے کہ طاقت کے بل پر حکومت تبدیل کرنے اور کسی بھی خودمختار ریاست پر لشکر کشی کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ انکی یادداشت میں کویت پر صدام حسین کی لشکرکشی کا سانحہ بھی تازہ ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ قطر میں امریکہ کا خطے کا سب سے بڑا فوجی اڈہ قائم ہے۔ ایسے عالم میں کون اس قسم کی مہم جوئی کرسکے گا اور کون ہے جو خطرات کے گھوڑے پر سوار ہوکر اپنی موت کو دعوت دیگا۔
    سعودی ، اماراتی، بحرینی قائدین20برس سے زیادہ عرصے سے قطر کے حکمرانوں کی کھلواڑ پر صبر و تحمل کامظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ انہیں قطر پر لشکر کشی کی کوئی ضرورت نہیں ،بائیکاٹ کافی ہے۔ قطر کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں مگر قطر ہے کہ بچوں کی طرح نظر انداز ہونے پر چیخ و پکار میں لگا ہے۔ بہتر ہوگا کہ قطری قائدین بجائے یہ کہ بے تحاشا دولت خرچ کرکے دنیا کے بڑے ممالک کو مصالحت کرانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریںایک سادہ سی سچائی کو اچھی طرح سے سمجھ لیں اور وہ یہ کہ پیار میں زور و زبردستی نہیں ہوتی۔

 

شیئر: