سمر الحیسونی ۔ المدینہ
ہمارے مذہب اسلام نے ہر طرح کی نسل پرستی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ نسل پرستی اسلامی اخلاق کے سراسر منافی ہے۔ اللہ کی نظر میں سارے بندے برابر ہیں۔لہذا اگر کوئی شخص وطن کی ہم آہنگی اور ہمدمی و ہمسازی کے منافی کوئی حرکت کرتا ہے یا فرزندان وطن کے درمیان نفرت و عداوت کے بیج بوتا ہے تو ہماری حکومت اس کے خلاف ضروری کارروائی کرتی ہے۔سعودی عرب میں مختلف تہذیبوں اور متعدد سماجی زمروں سے نسبت رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ سعودی عرب وسیع و عریض رقبے کا مالک ملک ہے اور ہر علاقے کی اپنی خصوصیات اور اپنی پہچان ہے۔
سعودی مجلس شوریٰ نے 7ویں سیشن کے پہلے سال کے 64ویں اجلاس کی کارروائی کے دوران انسداد امتیاز قانون کے مسودے کی تجویز پر غوروخوض کی منظوری دی تھی۔ مجلس شوریٰ کے ماتحت اسلامی و عدالتی امور کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ نسلی امتیازکے انسداد کیلئے قانون سازی کی جائے۔ کمیٹی نے توجہ دلائی تھی کہ سعودی عرب کا مذہبی، سیاسی اور اقتصادی مقام اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے یہاں نفرت و عداوت اور نسلی تفریق کو جرم قراردینے والا قانون جاری کرے۔ سعودی عرب نسلی امتیاز یا نسلی تفریق کا رنگ رکھنے والی تنظیموں کے قیام پر پابندی عائد کرے۔ اسلامی و عدالتی امو رکی کمیٹی نے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی تھی کہ نسلی امتیاز اور نفرت کے پرچار کے قانون کا اجراءمملکت سعودی عرب میں نافذ العمل اسلامی منہاج کے عین مطابق ہوگا۔ایک طرح سے نسلی امتیاز کو جرم قرار دینے کا فیصلہ سعودی عرب میں اقتدار کے بنیادی قانون کے اصولوں کی قانون سازی کے مترادف ہوگا۔ یہ قانون ان بین الاقوامی معاہدوں سے بھی ہم آہنگ ہوگا جن میں سعودی عرب شمولیت اختیار کئے ہوئے ہے۔
اس قانون کے بموجب سعودی عرب کی سماجی ہم آہنگی کو تحفظ حاصل ہوگا۔ قوانین پر عمل درآمد ہوگا۔ قوانین پر عملدرآمد کے انصاف کا تقاضا پورا ہوگا۔ تفرقہ و انتشار کی طرف لیجانے والے تصرفات پر سزا مقرر ہوگی۔ عجیب بات یہ ہے کہ مجلس شوریٰ کے اکثر ارکان نے مذکورہ قانون کے مسودے پر غوروخوض کی تائید و حمایت تو کردی تھی لیکن آج تک مذکورہ مسودے کو قانون کی شکل نہیں دی گئی۔ ابھی تک اس حوالے سے قانون جاری نہیں کیا گیا۔
نسل پرستی اور نفرت کے پرچار کو جرم قرار دینے والی دفعات کے فقدان کے باوجود سعودی عرب کے بعض ججوں نے زیر سماعت مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوئے نسل پرستی اور نفرت کے پرچار کو جرم قرار دیا ہے۔ انہوں نے افراد کے حقو ق کی حفاظت اور انسانی وقار کی پاسداری کے مقدمات میں نسل پرستی اور نفرت کے پرچار پر تعزیری سزائیں جاری کی ہیں۔
ایک سعودی شہری نے سعودی خاتون کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کئے تھے جن سے اس کی حیثیت مجروح ہورہی تھی۔ یہ اطلاعاتی جرم تھا۔ فوجداری کی عدالت نے نسل پرستی کو جرم قرار دینے والی دفعہ نہ ہونے کے باوجود مذکورہ شہری کو باقاعدہ سزا سنائی اور اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو نسل پرستی سے تعبیر کیا۔ یہ سعودی عدلیہ کی ایسی نظیر ہے جس پر ہمیں نسل پرستی کو جرم قرار دینے پر انہیں سلام کرنا ہوگا۔ ہمارے ان ججوں نے نسل پرستی کا تصور دینے والے جملوں کو انسان کے وقار کے منافی قرار دیا اور اس پر باقاعدہ سزا جاری کی۔ کوئی بھی شخص کسی کے آباﺅ اجداد کے حوالے سے بدکلامی کا مجاز نہیں۔ ایسا کرنے سے متعلقہ شخص کو ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ یہ نجی حق کا وہ جرم ہے جس پر سزا دی جانی لازم ہے۔
اپیل کورٹ کے ججو ںنے پرائمری کورٹ کے مذکورہ فیصلے کی تائید و حمایت کے ساتھ ساتھ ایک اضافہ یہ کیا کہ ججمنٹ میں موجود نسل پرستی کی تعبیر حذف کرادی۔اپیل کورٹ نے توجہ دلائی کہ اسکا کوئی متبادل اور موزوں لفظ استعمال کیا جائے۔ نسل پرستی کی تعبیر سے گریز کیا جائے۔
ہمارا خیال ہے کہ نسل پرستی ایسے افکار و نظریات سے عبارت ہے جن کے تحت کوئی شخص کسی ایک گروہ کو افضل و برتر قرار دے او ردوسرے گروہ کو طبقاتی یا سماجی یا قبائلی یا انفرادی فرق و اختلاف کی بنیاد پر کمتر گردانے ۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے واقعہ کے لئے نسل پرستی کے سوا اور کیا تعبیر استعمال کی جاسکتی ہے۔
میری آرزو ہے کہ نسل پرستی اور نفرت کے پرچار کو جرم قرار دینے والا قانون جلد جاری کیا جائے اوراسے مسودے کی صورت میں محفوظ نہ رکھاجائے ۔ ہمارے معاشرے کو نسل پرستی اور نفرت کے پرچار کے سنگین نتائج سے بچانے کیلئے اس قسم کے قانون کی اشد ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭