لمیا باعشن ۔ المدینہ
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب میں ان دنوں غیر معمولی تبدیلی ہورہی ہے ، اگر اس کا مطلب وہ یہ لیتے ہیں کہ سعودی معاشرہ طویل زمانے سے کسی ایک جگہ جمود کا شکار رہا ہے اور سعودی باشندے خشک مزاج اور دنیا کی طرف اپنی کھڑکیاں کھولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ عصر حاضر سے ہم آہنگی سے قاصرہیں تو یہ خیال بلاشبہ غلط ہے۔
چند برسوں کے دوران سعودی عرب میں پے درپے زبردست تبدیلیاں جس انداز سے آئی ہیں اس کی بابت یہ بات بلا خوف وتردید کہی جاسکتی ہے کہ سعودی شہری ابھی ایک تبدیلی کو ہضم نہیں کرپائے ہوتے ہیں کہ دوسری تبدیلی انکے سامنے منہ پھاڑے کھڑی ہوتی ہے۔یہاں تبدیلی کا دورانیہ محدود بھی ہے اور تیز بھی۔ تبدیلیوں نے یہاں زندگی کے رنگ ڈھنگ بدل دیئے ہیں۔ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے ، بودو باش اور سوچ تک کے طور طریقے اور بنیادیں بدل گئی ہیں۔
ماضی میں معاشرے کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور بین الاقوامی تمدنی کاررواں کی ہمرکابی میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ ہمارے یہاں پنجسالہ منصوبے آئے دن نافذ کئے گئے۔ بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے گئے۔ سعودی عو ام پنجسالہ منصوبوں کیساتھ ہم آہنگی کرتے رہے۔ انکے اہدا ف کے حصول میں پُرجوش طریقے سے حصہ لیتے رہے۔ بعض گروپ محسوس کرنے لگے کہ تابڑ توڑ تبدیلیوں سے وہ اپنے آپ کو گم نہ کر بیٹھیں۔ کئی لوگ نئے حالات سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوششوں سے پسپائی بھی اختیار کرنے لگے مگر حقیقت یہ ہے کہ جو کبھی بدلے گی نہیں کہ معاشرہ بدلتا رہتا ہے اور آنے والی ہیبتناک تبدیلیوں کو ہضم کرتارہتا ہے۔
وقت کا تصور یہی بتاتا ہے کہ اس میں ٹھہراﺅ نہ ہو۔ وقت مسلسل تبدیل ہونے والی شے ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس زندگی میں واحد شے جو تبدیل نہیں ہوتی وہ ہر شے کو اپنے احاطے میں لینے والی تبدیلی ہی ہے۔ تبدیلی غیر متزلزل دائروں سے نکالنے والی مخلوق ہے۔ سعودی عرب میں سماجی تبدیلی مسلمہ حقیقت ہے۔ تبدیلی کی رفتار کبھی مدہم اور کبھی تیز ہوجاتی ہے۔ کبھی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرلیتی ہے، کبھی بعض علاقوں کو اپنی آغوش میں لینے پر اکتفا کرتی ہے۔ کبھی خود بخود بے ساختہ آجاتی ہے اور کبھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
سماجی تبدیلی حتمی شے ہے۔ متعدد محرکات تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے سامنے سعودی وژن 2030ایک مثال ہے۔ یہ قومی آرزوﺅں کا عظیم الشان منصوبہ ہے۔ یہ آئندہ تبدیلی کے کاررواں کے نقوش کا مجموعہ ہے۔ یہ وطن عزیز کے دل سے نکلنے والی فکر ہے۔یہ وہ فکر ہے جس نے وطن عزیز کے مسائل اور مطلوبہ ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ہمہ جہتی احاطہ کرلیا ہے۔مسائل کے حل اور رکاوٹوں پر قابو پانے کے طور طریقے مقرر کئے ہیں۔ ہمارے سامنے اقتصادی صورتحال کی جملہ تبدیلیوں کا منظرنامہ ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ سعودی وژن2030 کا اقتصادی پس منظر پٹرول کے نرخ اور جنگ یمن کے سیاسی حالات ہیں۔ اس صورتحال نے ہمیں غیر معمولی اقدامات مثال کے طور پر ٹیکس لگانے اور سبسڈی اٹھانے پر آمادہ کیا ہے۔
اس پیش منظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی حالات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ انہیں الگ تھلگ کرکے اور ناگہانی تبدیلی کی شکل میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ معاشرے کی تمام تبدیلیاں عظیم تبدیلی کی تحریک دے رہی ہیں۔ آبادی کا ڈھانچہ دیہی و شہری آبادی کی تقسیم، تعلیم کی شرح، شادی، طلاق اور پیدائش کی شرح ، خاندانوں کا ڈھانچہ، سماجی و ترقیاتی و ثقافتی تعلقات ، عورتوں کے حالات، جغرافیائی صورتحال سمیت تمام امور سماجی تبدیلی کو موثر بنانے میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔
کچھ لوگ تبدیلی کی مخالفت پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں۔ تبدیلی کو انحطاط او رآباﺅ اجداد کے مرتسم ڈھانچے سے بغاوت کا نام دیدیتے ہیںحالانکہ تبدیلی کو پیشرفت اور زیادہ بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے زاویہ¿ نظرسے دیکھا جانا ضروری ہے۔ تبدیلی قانونِ فطرت ہے۔ ہمارے زمانے میں لوگ بہتر کل کےلئے پُرجوش رہتے ہیں اور زندگی کے طورطریقے تبدیل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔
گزشتہ برسوں کے دوران ہم کافی تبدیل ہوئے ہیں۔ ہم نے نئی زندگی کو قبول کیا ہے۔ ہم نے خود کو نئے حالات قبول کرنے پر راضی کرلیا ہے۔ سعودی وژن 2030 ایک طرح سے خود کو فطری شکل میں تبدیل کرنے اور دنیا بھر کے سامنے نمایاں شکل میں آنے کا اجازت نامہ ہے۔ اسکی بدولت معاشرہ اپنے آپ کا سامنا کرنے اور یہ ماننے اور فخریہ انداز میں یہ کہنے پر آمادہ ہورہا ہے کہ معاشرے کو متحرک ہونا ہے ۔ ترقی ، تبدیلی والا معاشرہ بننا ہے اور خود کو خود ساختہ پابندیوں سے آزاد کرانا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭