Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اگلا وزیر اعظم

***محمد مبشر انوار***
پاکستان کے ایوان بالا کے نتائج نہ صرف غیر متوقع رہے بلکہ حکومت کے لئے بھی خاصی ہزیمت کا باعث بنے ہیں۔ حکومتی ارکان گلے پھاڑ پھاڑ کرجمہوریت کی دہائی دے رہے ہیں اور پی پی پی،پی ٹی آئی گٹھ جوڑ(جو حکومت کیلئے باعث شکست بنا)کو غیر جمہوری طاقتوں کا آلۂ کار ثابت کرنے پر تلے ہیں۔یہاں یہ کہنا بر محل ہو گا کہ بد قسمتی سے ایسا گٹھ جوڑ حکومت خود کرنے میں ناکام رہی،جس کے باعث اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور حسب روایت اگر حکمران جماعت کامیابی حاصل نہ کر سکے تو ایسا کوئی بھی گٹھ جوڑ غیر جمہوری طاقتوں کا مرہون منت ہوتا ہے لیکن اگر خود مسلم لیگ ن مقتدرہ کے ساتھ مل کر (جس کی دہائی دی جا رہی ہے)کامیابی حاصل کر لے،تو وہ عین جمہوریت پسندی ہے۔ اس کی ادنیٰ سی مثال 2013کا عام انتخاب اور اس عرصے کے دوران ہونے والے متعدد ضمنی انتخاب ہیں،جس میں مسلم لیگ ن نے افسر شاہی کی مکمل حمایت و تائیدکے ساتھ معرکے مارے ہیں۔ 
سینیٹ انتخابات میں جو کرشمہ سازی ہوئی ہے اس سے بڑے بڑے بزرجمہر انگشت بدنداں ہیں کہ کیسے کل تک باہم دست و گریباں جماعتیں یک نقاطی ایجنڈے پر اکٹھی ہو گئیںیا انہیں اس ایک نقطے پر اکٹھا کر لیا گیا۔ایسا نہیں کہ ماضی میں ایسے سیاسی اتحاد نہیں ہوئے یا آئندہ نہیں ہو ں گے،مگر جو بات باعث تشویش ہے وہ صرف اتنی کہ اگر واقعی مقتدرہ اس اتحاد کے پیچھے ہے تو کیوںاور اس کے محرکات کیا ہیں؟اس حوالے سے بارہا مفصلاً تحریر کیا جا چکا ہے کہ اس میں سراسر کوتاہی سیاستدانوں کی ہے،جو عوامی حمایت پر بھروسہ نہیں کرتے اور بار بار مقتدر اداروں کی طرف دیکھتے ہیں۔
سینیٹ انتخابات کے بعد عملاً جو صورتحال نمودار ہو رہی ہے اس میں یہ واضح ہو رہاہے کہ آئندہ انتخابات میں پی پی پی اور پی ٹی آئی (براستہ بٹھنڈہ)ایک دوسرے کے ساتھ انتخابی اتحاد کر سکتی ہیں کیونکہ اس وقت حالات مسلم لیگ ن کے حق میں نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن پنجاب میں ایک ٹھوس وجود رکھتی ہے (جس کی وجوہ پر بھی بارہا بات ہو چکی ہے) لیکن کیا مسلم لیگ ن آئندہ انتخابات میں اپنی یہ حیثیت برقرار رکھ پائے گی؟بالخصوص جب افسر شاہی کو عدالت عظمیٰ نکیل ڈال رہی ہو اور مقتدرہ کا دست شفقت بھی مسلم لیگ ن کے سر پر نہ ہو؟
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کے نو منتخب صدرشہباز شریف نہ صرف ڈیل کے حوالے سے بھرپور تاثر دے رہے ہیں بلکہ مخالفین کے اتحاد کو بھی غیر جمہوری قرار دینے پر تلے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حالت بعینہٖ ایسی ہے کہ ’’گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘‘۔مراد مسلم لیگ ن اگر دوسری سیاسی جماعتوں کے تعاون سے اقتدار میں رہتی ہے توایسا سیاسی تعاون کلیتاً’’جمہوری‘‘(خواہ اس میں محمود خان اچکزئی ہی کیوں نہ شامل ہو) جبکہ مخالف سیاسی جماعتیں آپس میں دست تعاون بڑھائیں تو وہ غیر جمہوری و غیر سیاسی اور یو ٹرن پر مبنی ہے۔ پی پی پی پنجاب میں اس وقت جس ابتلا سے گزر رہی ہے، احیاء کے لئے اسے یقیناکسی دوسری سیاسی قوت کے ساتھ ہاتھ ملانا ہی پڑے گاکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ۔کل کے حریف آج کے حلیف بن سکتے ہیں اور آج کے حلیف کل مخالفین میں شامل ہو سکتے ہیں ۔
زرداری صاحب کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے اور یقینی طور پر وہ 2013کے انتخابات سے سبق سیکھ چکے ہیں کہ میدان خالی چھوڑنا کسی صورت بھی فائدہ مند نہیںلہذا وہ ہر صورت پنجاب میں پارٹی کا احیاء چاہتے ہیں تو دوسری طرف ’’محنت سے کمائی گئی دولت‘‘ کا تحفظ بھی ان کے پیش نظر ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ نہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور نہ خود کو چھپا نے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں جو ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے کہ کس طرح سے سارا کھیل الٹا دیا گیا اور مسلم لیگ ن سوائے دیکھنے کے کچھ بھی نہ کر پائی۔ پی ٹی آئی اس وقت پنجاب کی دوسری حقیقت ہے مگر اس کی قیادت پوری طرح اپنے ووٹرز کو نہ تو پولنگ اسٹیشن پر لانے میں کامیاب ہوتی ہے اور نہ ہی ان داؤ پیچ کا سد باب کر پاتی ہے،جس کا ملکہ مسلم لیگ ن کو حاصل ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ ہیوی ویٹس جو مسلم لیگ ن سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیںوہ بھی اس تکنیکی داؤ پیچ کا تدارک کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ بات صرف میں نہیں بلکہ کئی دوسرے احباب بھی کر چکے ہیں کہ پی ٹی آئی میں ورکرز کی معتد بہ تعداد درحقیقت پیپلز پارٹی کے ارکان کی ہے،جو پیپلز پارٹی کی پنجاب پالیسی کے حوالے سے نالاں تھے کہ پنجاب کا ووٹربالعموم اس سیاسی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ادا کرتا ہے جبکہ 2008کے انتخاب کے بعد پیپلز پارٹی اپنے اس کردار سے دستبردار ہو گئی۔ بظاہرمفاہمت کے نا م پر پنجاب مکمل طور پر مسلم لیگ ن کے حوالے کر دیا گیالیکن درحقیقت پارٹی قیادت جان کے خوف سے پنجاب میں داخل ہونے سے کتراتی رہی جس کا فائدہ براہ راست اس کے مخالفین نے اٹھایااور آج صورتحال یہ ہے کہ اول پنجاب میں پارٹی کو امیدوار ہی دستیاب نہیں جبکہ اکثر امیدوار اپنی ضمانتیں ضبط کرواتے پھرتے ہیں۔ 
اس پس منظر میں پی پی پی اور پی ٹی آئی میں انتخابی اتحاد کی ایک جھلک سینیٹ انتخاب میں نظر آ چکی ہے اور اگلی منزل یقینی طور پر عام انتخابات میں ’’سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘‘ ہو گی جس پر درون خانہ غالباً بات چیت شروع بھی ہو چکی ہے۔ گو کہ یہ انتخابی اتحاد یک نقاطی ایجنڈے پر ہی ہو گا کہ کس طرح مسلم لیگ ن سے پنجاب حاصل کیا جا سکے کہ ابھی تک مسلم لیگ ن کسی طور پنجاب میں اپنا ٹھوس وجود رکھتی ہے جس سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ میری ذاتی رائے میں اگر یہ اتحاد ہوتا ہے اور انتخابی مشینری غیر جانبدارہو جائے تو یقینی طور پر اس اتحاد میں اتنا دم خم ہو گا کہ ہاتھی کے منہ سے گنا چھین سکے۔اگر متوقع انتخابی اتحاد واقعتاوجود میں آتا ہے اور بعینہٖ ایسے ہی مؤثر بھی ہوتا ہے تو یہ بات طے ہے کہ آنے والی اسمبلی میں کسی ایک پارٹی کی واضح اکثریت ممکن نہیں رہے گی اور ’’مذاق جمہوریت‘‘ کے بعد مقتدرہ کا پردۂ ا سکرین کے پیچھے رہتے ہوئے ہی مقصد پورا ہو جائے گا۔ مقتدرہ ،براہ راست اقتدار پر قبضہ کرنے کی بجائے ایوان کو بالواسطہ چلانے میں کامیاب رہے گی جس کی ذمہ داری براہ راست ان خود ساختہ جمہوری قوتوں پر ہو گی جو باہم جوتم پیزار ہیں اور یہ ثابت کرنے پر تلی ہیں کہ وہ چھوٹے چھوٹے معاملات بھی باہمی افہام و تفہیم سے چلانے میں ناکام ہیں اور صرف لوٹ مار یا اس کو تحفظ دینے کی خاطر اقتدار میں آتے ہیں ۔ دہائی آئین و قانون کی دیتے ہیں مگر کہیں ایک قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے پر کاٹنے کی باتیں کرتا ہے تو دوسرا دھمکی آمیز لہجے میں ان کے کٹھ پتلی سربراہوں کی جرأت کو سوالیہ نشان بناتاہے۔ اس صورتحال میں نئی منتخب ہونے والی اسمبلی کا متوقع وزیر اعظم بھی کوئی ایسا ہی گمنام اور سیاسی شجرہ سے عاری شخص ہی ہو سکتا ،موجودہ پارٹی سربراہان میں سے کوئی نہیں۔ 
اگلا وزیر اعظم
محمد مبشر انوار
 

شیئر:

متعلقہ خبریں