Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلوکارعبدالرافع کی وطن روانگی، احباب آزردہ، افسردہ و دل گرفتہ

 امین انصاری۔جدہ
 روز آفرینش سے ہم یہی سنتے، سمجھتے اور دیکھتے آئے ہیں کہ جب کوئی کونج اپنی ڈار سے بچھڑتی ہے تو اُداس ہو جاتی ہے مگر ایسا منظر زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھنے ، سمجھنے اور پرکھنے میں آیا ہے کہ کونج کے جدا ہونے سے ڈار کی ڈار افسردہ، آزردہ اور دل گرفتہ ہے۔سید عبدالرافع کی مستقلاً وطن روانگی کے باعث صاحبان ترنگ بالخصوص اوراحباب ِ صدرنگ بالعموم سوال کرتے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں کہ تار بِنا ستار،حُسن بِنا سنگھار، گلشن بِنا بہار، فن بِنا فنکار اور ساز بِنا گلوکار اور رافع بِنا پردیس کا سنسار کیسا لگے گا؟
جدہ میں مقیم حیدرآبادی کمیونٹی کے معروف گلوکار سید عبدالرافع نے اپنے ساتھی گلوکاروںاور کمیونٹی کی چند اہم شخصیات کو اپنے گھر پر عشائیہ پر مدعو کیا ۔ تقریب میں جدہ کے نامور گلوکار محمد سکندر علی ،محمد کلیم ،امتیاز حسین ، سید عزیز محی الدین ، امجد حسین بیگ،محمد افروز ، محمد یونس بیگ ، وسیم مقدم ،محمد عبدالرزاق ( لتا ) محمد صدیق ، الطاف المیلکر ، بختیار اور محمد امتیاز مرزانے شرکت کی اور اپنے دیرینہ دوست سید عبدالرافع کے لئے دوستی، محبت، اخوت اور اپنائیت کے جذبات سے معمور نغمے سناکر اپنی قلبی کیفیات کا اظہار کرنے کی ناتمام کوشش کی اور انے دوست کو خراج تحسین پیش کیا ۔ وسیم مقدم اور کلیم خان نے مل کر اپنی دل سوز آواز میں نغمہ سنایا:
توکل چلا جائے گا تو میں کیا کرونگا 
تو یاد بہت آئے گا تو میں کیا کرونگا
وسیم اور کلیم نے یہ گانا گاکر محفل کو کچھ دیر کیلئے غمگین کردیا ۔ اس موقع پر تلنگانہ این آرائی فورم کے نائب صدر محمود مصری نے بھی اپنی آوآز کا جادو جگاتے ہوئے عبدالرافع کو ایک گانا نذر کیا اور موسیقی کے ساتھ گاکر گلوکاروں اور حاضرین کو چونکا دیا۔ عبدالرافع کی طرف سے دیئے گئے۔ اس عشائیے میں گلوکاروں نے اپنے دوست کے ساتھ گزرنے والے شب و روز کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ عبدالرافع ایک نیک دل اور خوش اخلاق انسان ہیں ۔ ان کا دل حسد ، بغض اور کینہ سے پاک ہے ۔وہ ہر ایک سے انتہائی خوش اخلاقی سے مسکراتے ہوئے ملتے ہیں ۔ گائیکی ہو یا کوئی فلاحی کام، وہ خود کو پیش پیش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دن ہو کہ رات وہ اپنی خدمات پیش کرنے میں کبھی بیزاری یا پریشانی کا احساس نہیں ہونے دیتے بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہر کسی کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ان کے اس حُسنِ اخلاق کے باعث ہی وہ ہر کسی کے دل میں مقام رکھتے ہیں، احترام رکھتے ہیں، احباب میں ایک نام رکھتے ہیں۔
عبدالرافع میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی نام و نمود کیلئے دوڑ دھوپ نہیں کی۔ گلوکاری سے قبل بھی وہ سماجی اور ملی خدمات میں مصروف رہے پھر یوں ہوا کہ 12 سال قبل انہوں نے شوقیہ گلوکاری شروع کی اور بہت جلد وہ جدہ کے نامورگلوکاروں میں شمار کئے جانے لگے ۔ شوق کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنے گھر پر بہترین ساو¿نڈ سسٹم لگوا یا اور اس کے لئے وہ اہل ذوق کو گائیکی کی دعوت دیتے اور یوں ان کی شامیں ”غزل“ کا روپ دھار لیتیں جس میں وہ خود بھی سروں سے اٹکھیلیاں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالرافع کے مسکن پر بپا ہونے والی محافل موسیقی جدہ کی مشہور اور غنائی شاموںمیں شمار کی جاتی ہیں۔
جدہ کے گلوکاروں کو اب یہ فکر دامن گیر ہے کہ رافع کے وطن چلے جانے کے بعد اس طرح کی نغمہ بار شامیں کس کے ہاں طلوع ہوا کریں گی۔عبد الرافع کے اس شوقِ نغمہ سرائی میں ان کی اہلیہ بھی اس طرح تعاون کرتیں کہ وہ گھر آنے والے مہمانوں کے لئے چائے اور کھانے وغیرہ کا اہتمام کرتیں۔ایسی گرہستی اور شوہر پروری کی مثال شایدہی کسی اور کاشانے کے مقدر میںہو گی۔ 
سید عزیز محی الدین نے کہا کہ عبدالرافع ایک زندہ دل اور ہنس مکھ انسان ہیں۔ ان کے چہرے پرکھیلتی مسکراہٹ نہ صرف انکی شخصیت کو برد بار بناتی ہے بلکہ سامنے والے کے دل کو چھولیتی ہے ۔ جو شخص بھی ان سے پہلی بار ملاقات کرتا ہے، اسے گماں گزرتا ہے کہ شاید رافع اسے برسوں سے جانتے ہیں۔ انہیں اگر افسانوی شخصیت قرار دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ عبدالرافع کی آواز، برسوں جدہ کی فضاﺅں میں گونجتی رہی ، اب ہمیں یقین ہے کہ وہ وطن عزیز حیدرآباد میںبھ چارسو پھیلے گی ۔ 
محمود مصری نے کہا کہ عبدالرافع کی عدم موجودگی اہل جدہ کو یقیناہمیشہ ستاتی رہے گی کیونکہ یہ دوستوں کے دوست اور محفلوں کی جان تھے۔ کسی بھی تنظیم کے لئے اپنی بے لوث خدمات پیش کرتے ہوئے اپنے نام اور شخصیت کو پس پردہ رکھنا، عبدالرافع کے خلوص اور اپنوں کے لئے اپنی ذات کو وقف کر دینے کا ناقابل تردید ثبوت ہے ۔ 
مرزا قدرت نواز بیگ نے کہا کہ دفتری اور گھریلو پریشانیوں میں الجھے ہوئے دوست احباب عبدالرافع کے ہاں جب بزم موسیقی میں شرکت کرتے تو فرحت محسوس کرتے تھے ۔وہ چہرہ شناس شخصیت ہیں چنانچہ وہ اپنے دوستوں کے چہروں کو پڑھتے اور پھر ایسے گانے گاتے کہ جن سے انکی فکر کچھ دیر کیلئے ہی سہی، دور ہوجاتی ۔ رات کا کوئی بھی پہر ہو، رافع بھائی کو فون کریں تو سلام و دعا کے بعد پہلا جملہ یہی ہوتا " کدھر ہیں بھائی، آجائیں ، ہم بیٹھے ہیں محفل سجائے " 
سید عبدالرافع نے کہا کہ دیار غیر میں پتہ ہی نہیں چلا کہ 39 سال کب اور کیسے گزر گئے۔ آج جب جانے کی بات ہورہی ہے تو ماضی کی یادیں خون رلارہی ہے ۔ یوں لگتا تھا کہ سعودی عرب ہی ہمارا وطن ہے اور یہی ہماری مٹی ہے مگر اللہ کریم کی مرضی کے سامنے کسی کی کہاں چل سکتی ہے ۔ جدہ کے ایک ایک ساتھی سے جو پیار ، محبت اور اخلاص ملا ،وہ میں آخری سانس تک نہیں بھلا سکوں گا ۔ اگر حقیقت کہوں تو بیجا نہیں کہ مجھے میرے عزیزواقارب سے اتنا پیار نہیں ملا جتنا میرے دوستوں اور چاہنے والوں نے دیا ۔ انہوں نے اس موقع پر حیدرآبادی کمیونٹی کی تنظیموں کے تمام ممبران اور دوستوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مجھے بے حد محبتوں اور دعاو¿ں سے نوازا۔ اب ایک خواہش پوری کریں کہ جب بھی حرمین شریفین کی زیارت ہو، عبدالرافع اور اس کی اہلیہ کو ضرور دعاو¿ں میں یاد رکھیں ۔ انہوں نے اپنی گلوگیر آواز میں رخصتی اور وداعی کے کئی گیت گاکر احباب سے محبت کا اظہار کیا ۔
 
 

شیئر: