کسی کو اچھالگے یا برا، ہم تو حقیقت بیان کرنے سے باز آنے والے نہیں چنانچہ آج پھر اسی ہستی’’مس شکیلہ‘‘ کا ذکر کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں جنہوں نے ہمارے وجود پر احسان کیا، جنہوں نے ہمارے لئے روشن مستقبل کا سامان کیا،جنہوں نے مروڑ مروڑ کر بڑا ہمارا کان کیا،جن پر ہم نے ہمیشہ مان کیا، جنہوں نے ہمیں گرویدۂ پاکستان کیا ۔مس شکیلہ ہمیں پکی جماعت میں بھی کبھی بے کار بیٹھنے نہیں دیتی تھیں بلکہ کوئی نہ کوئی کام دے دیتی تھیں اور اگر کچھ نہ ہوتا تو ہم سے باتیں کرتیں ۔ یہاں بھی ہم ان کی عظمت کا یہ گُن گانا ناگزیر سمجھتے ہیں کہ اگر وہ چاہتیں تواپنی عمر، حالات حاضرہ و غائبہ کے تناظر میںشمیم آراء، زیبا، مسرت نذیر یا پھر مینا کماری، مدھو بالا، آشا پاریکھ، دلیپ کمار، راج کپور،دیوآنند،راجندر کمار، راجیش کھنہ یا پھر وحید مراد، محمد علی، حبیب، اعجازدرانی کی فلموں کی کہانیاں سناتیں، ان میں گائے جانے وا لے نغمے گنگناتیں اورمختلف اداکارائوں کی نقلیں اتار کر دکھاتیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیابلکہ انہوں نے ایسے واقعات اور حکایات گوش گزار کیں جو ہماری سوچوں کا آسمان بن گئیں۔ ہم نے ان کی باتوں سے بہت کچھ اخذ کیا۔
مس شکیلہ نے ایک روز ہمیں بتایا کہ پرانے وقتوں کا ذکر ہے ، ایک نیک بزرگ اپنے اونٹ پر سوار جا رہے تھے۔ شام ڈھل رہی تھی ۔ اسی اثناء میں انہیں ایک خاتون نے روکا جو سر سے پائوں تک پردے میں تھی۔ اس نے کہا کہ میں راستہ بھول گئی ہوں، مجھے فلاں جگہ جانا ہے۔ وہ بزرگ اپنے اونٹ سے اترے، اس خاتون کو اونٹ پر بیٹھنے کیلئے کہا اور خود مہار تھام کر پیدل چلنے لگے۔راستے میں ا ن بزرگ کا گھر بھی پڑتا تھا۔ اسی دوران انہیں خیال آیا کہ میں پلٹ کر دیکھ لوں ، شاید اس عورت نے چہرے سے نقاب ہٹالیا ہو اور میں اس کو دیکھ سکوں۔یہ خیال آتے ہی انہوں نے اونٹ کی مہار درخت سے باندھی اور خاتون سے انتظار کے لئے کہہ کر بھاگے ہوئے قریب ہی موجود اپنے گھرپہنچے اور والدہ سے استفسار کیا کہ ماں! مجھے بتائیے، کیا آپ نے کبھی مجھے کوئی حرام کا نوالہ تو نہیں کھلایا ؟ والدہ نے کچھ توقف کے بعد کہا ’’ہاں بیٹا! ایک مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ کہیں سے آٹا آیا تھا اور میں نے کسی تحقیق کے بغیر ہی اسے گوندھ کر روٹی پکائی اور تجھے کھلا دی تھی۔ والدہ نے استفسار کیا کہ تو مجھ سے یہ کیوں پوچھ رہا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آج میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں پلٹ کر اس نامحرم عورت کو دیکھ لوںجو میرے اونٹ پر سوار ہے اور اسے میں اس کے گھر چھوڑنے جا رہا ہوں۔
آج ہمیں مس شکیلہ کی یہ بات یاد آئی تو ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ اگر بلا تحقیق کھلایاجانے والا ایک نوالہ ان بزرگ ہستی کونامحرم کی جانب نظر اٹھانے کا گناہ کرنے پر اکسا نے کا سبب بن سکتا ہے تو وہ لوگ جو معصوم اور نا سمجھ ہستیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر انہیں جان سے مار کر، ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے بے گور و کفن کچرا کنڈی پر پھینک کر خود چین کی نیند سو جاتے ہیں، ان کے حلق سے کیسے نوالے اترے ہوں گے۔ ان کے ابا اماں نے انہیں کیا کھلایا ہوگا؟
وہی اسکولی دور تھا، وقت گزررہا تھا، ہم کچی پکی میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد پہلی جماعت میں پہنچ چکے تھے۔ ایک روزپھر مس شکیلہ نے فارغ وقت میںایک واقعہ سنا ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ پرانے وقتوں کی بات ہے ۔ ایک ذہین نوجوان تھے۔ وہ جو کتاب پڑھتے، انہیں یاد ہو جاتی تھی۔ان کے استاد اپنے شاگرد کی صلاحیت دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے۔وہ انہیں جو بھی سبق دیتے، وہ اسی لمحے کتاب سے پڑھتے اور فر فر سنا دیتے۔ایک روز ایسا ہوا کہ وہ شاگرد اپنے ا ستاد کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ نجانے کیوں، میرا حافظہ اب ویسا نہیں رہا۔ اب میں پڑھی ہوئی کتاب فر فر نہیں سنا سکتا بلکہ جگہ جگہ رک کر یاد کرنا پڑتا ہے کہ یہاں کیا تھا۔یہ سن کر استاد نے فرمایا کہ یاد کرو، جس دن سے تمہیں سبق بھولنا شروع ہوا ، اس دن تم سے کوئی نہ کوئی گناہ ضرور ہوا ہوگا۔ ان شاگرد محترم نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا :جی ہاں استاد محترم!ویسے تو میں نظر نیچی رکھتا ہوں مگر اُس روز میں نے ایک نامحرم کو دیکھ لیا تھا۔مس شکیلہ نے بتایا کہ استاد کے یاد دلانے پر شاگرد نے توبہ کی اورپھر ان کا حافظہ ویسا ہی ہو گیا جیسا پہلے تھا۔
مس شکیلہ کی یہ بات ہمیں یاد آئی اور پھر فوراً ہی خیال آیا کہ آج کل تو صورتحال یہ ہے کہ بعض لوگ اپنا نام، اپنا کام،اپنا مقام سب کچھ بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ اپنی بات، اپنی ذات، اپنی اوقات اور اپنی مات سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
ہماری سیاسی اُپچ دیکھئے۔ روشنیوںکا شہر کراچی ، پاکستان کی سب سے بڑی کچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔وہاں 9،9گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ روپے کی قدر دھڑام سے گرنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔مہنگائی کا طوفان عوام کو اپنے نرغے میں لئے ہوئے ہے، صحت کارکنان ، ڈاکٹر صاحبان اور اساتذہ جیسے فرزندانِ پاکستان احتجاجی دھرنے دے رہے ہیں۔انہیں تنخواہیں نہیں مل رہیں، بڑے شہروںمیں ٹرانسپورٹ منصوبوں کیلئے سڑکیں کھدی پڑی ہیں، زیادتی کا نشانہ بننے والی معصوم دخترانِ پاکستان کے قاتلان کو کیفر کردار تک پہنچانے والے نجانے کیا کر رہے ہیں؟پولیس نے فائرنگ کر کے جن’’ لاہوری سہاگنوں‘‘کو بیوہ کیا تھا ، انہیں انصاف دلانے والے کیا کر رہے ہیں؟جی ٹی روڈ پر ’’پروٹوکولی قافلے‘‘ نے جس بچے کو روند کر ملیا میٹ کر دیا تھا، اس کے گھر والوں کے آنسو پونچھنے والے کیا کر رہے ہیں؟سوال یہ ہے کہ قومی خزانہ لوٹنے والوں، بیرون ملک جائدادیں خریدنے والوں، عوام کو بیوقوف بنانے اور سمجھنے والوں، جھوٹے وعدے کرنے والوں، ملک کو تنزل کی جانب دھکیلنے والوں ، ٹی وی پر آ کر غصہ ہونے اور اول فول ’’فرمانے‘‘ والوں کو آخر گھر تک پہنچانے میں کیا امر مانع ہے ؟ یوں تو پھر وہی انتخابات کا موسم آچکا ہے،قوم پر مسلط ہونے کے خواب دیکھنے والے اغیار کی منتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں موقع مل جائے تو ہم آپ کی تمام فرمائشیں آپ کی توقعات سے زیادہ بہتر انداز میں پوری کر دیں گے۔
یقین جانئے آج کے انتخابی موسم کے تناظر میں ہمیں چند روز قبل سے ایک خیال آ رہا ہے کہ ہم وطن جا کرمس شکیلہ کو تلاش کریں اور وہ جہاں کہیں بھی ہوں، انہیں انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کریں، پھر انہیں جتوانے کیلئے دامے درمے سخنے قدمے کوششیں کریں کیونکہ ہمارے وطن عزیز کو مس شکیلہ جیسی فطین، ذہین اور متین شخصیت کی ضرورت ہے۔