پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر ٹویٹر پر #آج_بھی_بھٹو_زندہ_ہے ہیش ٹیگ لانچ کیا گیا جس میں پارٹی کارکنان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
علی رضا ماری نے کہا : ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیت کی تعریف کرنے کے لئے میرے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں ، میں صرف یہی کہوں گا کہ وہ اس ملک کے ہیرو تھے۔
سہیل انور سیال نے ٹویٹ کیا : ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت نے ملک میں آمرانہ قوتوں کو شکست سے دوچار کر کے خود کو جمہوریت کی بقاء اور بحالی کے لئے کی جانے والی کاوشوں کے سنہرے باب میں ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔
ظہیر چنا نے کہا : قاتل کی تو موت ہوئی ، جو قتل ہوا وہ زندہ ہے۔
تبسم کاظمی نے ٹویٹ کیا : بھٹو کو پھانسی دیتے یہ سوچا ہوتا کیا پوری دنیا میں کوئی دوسرا بھٹو ہے بھی ، اور یہ پھانسی پاکستان کی ترقی خوشحالی اور طاقت کو تو نہیں ہورہی؟
وقاص شوکت نے کہا : جمہوریت کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قربانیاں تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائیں گی۔
فروہ شاہ نے کہا : ذوالفقار علی بھٹو ایک جمہور پسند شخصیت تھے۔ انہوں نے ڈکٹیٹر کے آگے سر جھکانے کے بجائے موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی۔
شعیب نے ٹوئٹ کیا : سندھ کے تمام عوام بھوک ، خسرہ ، صاف پانی ، صحت ، تعلیم ، فلاح و بہبود ، وڈیرہ شاہی اور بہت سے بنیادی سہولیات کے فقدان سے مر بھی جائیں لیکن بھٹو پھر بھی زندہ رہے گا۔
عاطف آزیو نے کہا : بھٹو اگر تب نہ مرا ہوتا تو جو پیپلزپارٹی نے آج سندھ کی حالت کردی ہے یہ دیکھ کہ بھٹو نے نہیں بچنا تھا۔
نعیم بخاری نے سوال کیا : اگر آج بھٹو زندہ ہے تو یہ برسی کس کی منعقد کی جا رہی ہے ؟کیا زندہ لوگوں کی بھی برسی منائی جاتی ہے؟
برکت بگٹی نے تویٹ کیا : تھر میں بچے پیاس سے مر رہے ہیں ، منی لانڈرنگ عروج پر ہے ٬ بے روزگاری نے کمر توڑ دی ہے مگر بھٹو آج بھی زندہ ہے۔
سعد خان نے طنزیہ ٹویٹ کیا : آج بھی بھٹو زندہ ہے اور سندھ میں بچے مر رہے ہیں۔