اتوار 15اپریل کو سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض “ کا اداریہ
آج دنیا بھر کی نظریں ظہران شہر کی طرف لگی ہوئی ہیں جہاں عرب قائدین اہم کانفرنس کرینگے۔ انکے سامنے انتہائی اہم مسائل ایجنڈے پر ہیں جن میں سے کسی کو بھی ٹالا نہیں جاسکتا۔
سرفہرست مسئلہ فلسطین ہے۔یہ مسئلہ حالیہ ایام میں حوصلہ شکن تبدیلیوں سے دوچار ہوا ہے۔ خاص طور پر القدس سے متعلق صورتحال نے بڑا مایوس کیا ہے۔ علاوہ ازیں شام اور یمن کے بحران بھی ایجنڈے میں ہیں۔ یہ دونوں بحران عر ب ممالک کے اندرونی امور میں ایران کی کھلی مداخلت کا نتیجہ ہیں۔ ایران نے شام اور یمن میں مداخلت کرکے عربوں کی قومی سلامتی کی دیوار میں براہ راست نقب لگائی ہے۔ یہ عربوں کی مشترکہ جدوجہد کے ہر منصوبے کو الٹنے کی کوشش ہے۔ عرب 73برس سے جو جدوجہد کررہے تھے، اسے ایران سبوتاژ کر رہا ہے۔
اس تناظر میں عربوں کو ایران کے حوالے سے ٹھوس موقف اختیار کرنا ہوگا اور کسی بھی مشترکہ قومی منصوبے اور امن و استحکام مخالف ایرانی کوششوں کا جم کر سامنا کرنا پڑیگا۔
ایران یمن ، شام، عراق، لبنان اور بحرین میں سماجی امن و سلامتی کو مسلسل خطرات لاحق کررہا ہے۔ ایران دہشتگردی کی برآمد پر بھی بضد ہے۔ ایران مختلف عرب ممالک میں دہشتگردی کی جس انداز سے حمایت کررہا ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عربوں کے ساتھ پرامن بقائے باہم کی کوئی رغبت نہیں رکھتا۔
موجودہ عرب حالات امن و امان کی سطح پر غیر معمولی طریقے سے بگاڑ کا شکار ہیں۔ یہ پہلو ظہران عرب سربراہ کانفرنس کی اہمیت کو جتا رہا ہے۔ عرب سربراہ کانفرنس کو ایران کی معاندانہ پالیسیو ںاور خطرات کے خلاف مشترکہ موقف اپنانے کی تحریک دے رہا ہے۔ عربوں کو اپنے امن و استحکام کے تحفظ سے متعلق تمام منصوبوں کو موثر کرنا ہوگا۔ علاقائی طاقتوں کے ساتھ انجانے نتائج سے غیر محفوظ معاہدوں سے بالا ہوکر کام کرنا ہوگا۔
یہ درست ہے کہ کئی عرب ممالک کے حالات انتہائی دگرگوں ہیں لیکن موجودہ دور کی نزاکتوں کے احساس و ادراک کی بدولت امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ امید یہی ہے کہ عرب قائدین درپیش صورتحال سے نکلنے کیلئے متفقہ طریقہ کار اختیارکرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تمام عرب عوام کانفرنس سے اسی کے متمنی اور آرزو مند ہیں۔ یہ کانفرنس موجودہ عرب نسلوں اور آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے ضامن پائدار ترقیاتی عمل کا نکتہ آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭