فلسفہ معراجِ نبویﷺ اور دورِ حاضر کے تقاضے
’’ اسریٰ‘‘ رات کی سیر کو کہا جاتا ہے،اس سے مراد مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر اور مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک کی سیر کو معراج کہا جاتا ہے
* * *عبدالمنان معاویہ۔ لیاقت پور، پاکستان ** *
حضور نبی کریم کے معراج شریف کا واقعہ نہایت مشہور ومعروف ہے ۔اُسے علمائے اسلام نے نہایت تفصیل سے تحریر فرمایا ہے اور اکثر واقعہ تفسیر ِ قرآن کریم اور صحیح احادیث نبویہ ؐ میں موجود ہے۔اس سارے واقعہ سے دورِ حاضر کے مسلمانوں کو کیا سبق ملتا ہے ؟اور اِس واقعہ کو مدنظر رکھ کر آئندہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ،یہ سوالات نہایت اہم ہیں اور اس تحریر میں ہم اس بات پر روشنی ڈالیں گے ، انشاء اللہ ۔
واقعہ معراج کب پیش آیا ،اس میں علمائے سیر کا اختلاف ہے ۔اس بارے میں علماء کے 10 اقوال ہیں ،حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واقعہ معراج سفر طائف کے بعد پیش آیا (زاد المعاد)۔
محقق عالم دین ،محدث ومفسر قرآن حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلوی ؒ فرماتے ہیں :
’’ راجح قول یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اور بیعت ِ عقبہ سے پہلے معراج ہوئی ۔۔۔یہ امر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا 5 نمازیں فرض ہونے سے پہلے ہی وفات پاگئیں اور یہ بھی مسلّم ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا شعب ابی طالب میں آپ کے ہمراہ تھیں ۔شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد ان کا انتقال ہوا،اور یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ آپ اور آپ کے تمام مقدمات سے نتیجہ یہی نکلا کہ معراج 10نبوی کے بعد 11نبوی میں سفر طائف سے واپسی کے بعد کسی مہینہ میں ہوئی۔رہا یہ امر کہ کس مہینہ میں ہوئی، اس میں اختلاف ہے ۔ربیع الاول یا ربیع الآخر ،یا رجب یا رمضان یا شوال میں ہوئی۔5قول ہیں ۔مشہور یہ ہے کہ رجب کی 27ویں شب میں ہوئی۔ ‘‘(سیرۃ المصطفیٰ )۔
اب ہم اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے آیت قرآنی کا مفہو م پیش کرتے ہیں ،ارشاد ربانی ہے:
سبحٰن الّذیٓ اسرٰی بعبدہٖ لیلًا مّن المسجد الحرام الی المسجد الاقصا الّذی بٰرکنا حولہ لنریہ من اٰیٰتنا ، انّہ ھو السمیع البصیر ۔
’’پاک ہے وہ ذات (یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات) جس نے اپنے بندہ کو ،ایک رات میں(رات کے کچھ حصہ میں) مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر کرایا ،جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اپنی نشانیاں دکھائیں،بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ ‘‘( بنی اسرائیل1)۔
حق تعالیٰ نے آغازِ کلام یہاں سے فرمایا کہ :سبحٰن الّذیٓ،یعنی پاک ہے ،وہ ذات ۔اس ابتدائیہ سے حق تعالیٰ اُن لوگوں کے شکوک وشبہات دور فرمانا چاہتے ہیں جو واقعہ معراج کو عقل کے ترازو میں دیکھ رہے تھے ،یا اب تلک دیکھ رہے ہیں ،کیونکہ یہ واقعہ عقلی میزان پر پیش کرنے کا نہیں بلکہ اس کا تعلق ایمان بالغیب پر ہے اور دوسری بات جو اہم ہے کہ اس ابتدائیہ کلام سے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ :سبحٰن الّذیٓ،پاک ہے وہ ذات ،یعنی پیغمبر اسلام خود تشریف نہیں لے گئے ،بلکہ پاک ہے وہ ذات جس پیغمبر اسلام کومسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی اور وہاں سے آسمانوں ،جنت ودوزخ کی سیر کرائی گئی ،ملاقاتِ باری تعالیٰ ہوئی ،یہ سب قدرت الہٰیہ سے ہوا اور اللہ وہی ہے جس نے جنت سے آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا ۔اگر باری تعالیٰ جنت کی وادی سے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام واُم البشر حضرت حوا سلام اللہ علیہا کو زمین پر بھیج سکتے ہیں ،تو کیا زمین سے وہ اپنے محبوب نبی کو آسمانوں پر نہیں بلا سکتے ؟اور منکرین کا اعتراض نبی کریم پر نہیں ،بلکہ قدرت ِباری تعالیٰ پر ہے اسی لیے آغازِ کلام سبحٰن الّذیٓ سے فرماکر معترضین کے اعتراضات کو اپنے محبوب سے پھیر دیا۔
عربی زبان میں’’ اسرٰی‘‘ رات کی سیر کو کہا جاتا ہے۔بعض علمائے کرام اسرٰی سے مراد مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر اور مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک کی سیر کو معراج سے تعبیر فرماتے ہیں اور بعض علمائے کرام دونوں کو معراج کہہ دیتے ہیں اور عوام میں بھی یہی رائج ہے کیونکہ معراج کا واقعہ رات کے وقت پیش آیا تھا ،اس لیے اِسے اسرٰیسے تعبیر فرمایا اور آگے فرمایا’’ بعبدہٖ‘‘،اپنے عبد ِ کامل کو یعنی اس لفظ سے نبی کریم کے عبد ِ کامل ہونے کی تصریح فرمادیتاکہ کل کلاں واقعہ معراج کو بنیاد بنا کر نبی کریم کو اللہ کا شریک نہ بنا لیں یا نبی کریم کی جنسِ بشریت کی نفی نہ فرمادیں اس لیے اولاً اپنی قدرت ،بزرگی کا اعلان فرمایا ،پھر رات کی سیر کا ذکر کرکے نبی کریم کی عبدیت کاملہ کا تذکرہ فرمادیا ۔یہ اس لیے بھی تھا کہ لوگ اسے ایک دلچسپ واقعہ سمجھنے کے بجائے عقیدہ سمجھیں ،اور لوگوں کو عقائد سمجھیں ،ان ابتدائی مفہوم ِقرآنیہ کے بعد واقعہ معراج ملاحظہ فرمائیں ۔
بخاری ومسلم میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں آرام فرما تھے ،کہ مکان کی چھت کھلی اور جبریل علیہ السلام مع جماعت ِ ملائکہ کے تشریف لائے اور آپ کو نیند سے بیدار کیا ۔انہوں آپ کے صدرِ مبارک کو چاک کیا اور اُسے آبِ زم زم سے دھویا ۔اس کے بعد سونے کا ایک طشت ایمان وحکمت سے بھر کر لائے اور اُسے اِ س میں ڈال کر بند کردیا، اور ساتھ لے کر چل پڑے ۔آپ کے لیے خاص سواری لائی گئی جس کا نام براق تھا ۔آپ براق پر سوار ہوئے اور سب سے پہلے مدینہ طیبہ (اُس وقت کا یثرب )میں2 رکعت نماز پڑھی ،وادی سینا شجر ۂ موسیٰ کے قریب 2 رکعت نماز ادافرمائی ،پھر مدین میں 2رکعت نماز پڑھی ،پھر بیت اللحم میں پیدائش عیسیٰ علیہ السلام کے قریب2 رکعت نماز ادا فرمائی ۔وہاں سے روانہ ہوئے تو ایک بوڑھی نے آپ کو آواز دی۔جبریل علیہ السلام نے اُس کی جانب التفات سے منع فرمایا،پھر آگے ایک بوڑھے نے آواز دی ،تو بھی جبریل علیہ السلام نے ان کی جانب متوجہ ہونے سے منع فرمایا ۔جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ بوڑھی عورت دنیا تھی جس کی عمرختم ہونے کو ہے،اور بوڑھا شخص شیطان تھا۔
پھرآپ مسجد اقصیٰ میں پہنچے۔ وہاں ارواح انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات موجود تھیں ۔انہوں نے آپ کو سلام کیا ،اس کے بعد اذان ہوئی ،اقامت کہی گئی تو آپ نے امامت کرائی۔بعض روایات میں آتا ہے کہ انبیائے کرام ؑ کے علاوہ سماوی فرشتوں نے بھی آپ کی امامت میں نمازاد اکی ۔جب نماز ادا فرمالی گئی تو سماوی ملائکہ نے جبرئیل امین ؑ سے دریافت کیا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہیں ۔حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین () ہیں ۔ملائکہ نے پوچھا کہ کیا ان کے پاس بلانے کا پیغام بھیجا گیا تھا ؟جبریل علیہ السلام نے فرمایا:ہاں ۔فرشتوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو زندہ وسلامت رکھے ،بڑے اچھے بھائی اور بڑے اچھے خلیفہ ہیں (تلخیص از سیرۃ المصطفیٰ )۔
پھر جبریل علیہ السلام آپ کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے ۔جب آپ آسمان پر پہنچے تو جبریل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔اس نے کہا کہ کون ہیں ؟انہوںنے جواب دیا :جبریل۔اس نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہیں ؟ انہوںنے کہا : ہاں میرے ساتھ محمد ہیں۔اس نے سوال کیا :کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ انہوںنے اثبات میں جواب دیا۔
جب آپ پہلے آسمان پر تشریف لے گئے تو ایک شخص کو دیکھا جس کے دائیں اور بائیں بہت سی پرچھائیں تھیں ۔جب وہ دائیں دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں دیکھتے تو روتے ۔آنحضرت کو دیکھ کر انہوںنے ’’مرحبا یا نبی الصالح ،مرحبا یا ابن الصالح‘‘کہا۔ آنحضرت نے جبریل ؑ سے پوچھا یہ کون ہیں۔
انہوں نے بتایا یہ آدم علیہ السلام تھے۔اسی طرح دیگر انبیائے کرام ؑ سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ہر نبی ورسول آپ کا مرحبا یا اخی الصالح کہہ کر استقبال کرتے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آپ کو ’’مرحبا یا نبی الصالح ‘‘کے ساتھ’’مرحبا یا ابن الصالح‘‘ بھی کہا ۔اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو لے کر اُس مقام پر پہنچے جہاں قلمِ قدرت کے چلنے کی آواز آرہی تھی ۔اس موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر50 نمازیں فرض کیں۔اس عطیہ ٔ ربانی کو لے کر آپ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ؟آپ نے بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ دوبارہ بارگاہ ایزدی میں حاضری دیں اور کم کرائیں۔ آپکی امت اس کی متحمل نہیں ہوسکے گی ۔آپ دربارِ خداوندی میں حاضر ہوئے تو ایک حصہ کم کردیا گیا ۔دوبارہ موسیٰ علیہ السلام نے مشورہ دیا۔ آپ پھر دوبارہ تشریف لے گئے اس طرح اپنی امت کی خاطر سرورِ کائنات نے کئی چکر لگائے۔ آخر حق تعالیٰ نے کم کرتے کرتے5 نمازیں فرض قرار دے دیں ۔ان5 نمازوں پر ثواب اب بھی50 نمازوں کا ہی ملے گا ۔
روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ کو 3 عطائے ربانی ملے: پہلا:سورۃ البقرہ کی آخری آیات ،جن میں ایمان وعقائد کی تکمیل وتشریح مذکور ہے۔دوسرا: دورِ مصائب کے خاتمہ کی بشارات ہے ۔حق جل مجدہ نے خاص مژدہ سنایا کہ آپ کی امت میں سے جو کوئی شرک نہ کرے گا ،اُس کی مغفرت کردی جائیگی اور تیسرا عطیہ نمازوں کا جس کا ذکر اوپر آچکاہے ۔
نمازوں کے عطیہ کے بعد رسول اللہ کوسدرۃ المنتہیٰ (انتہاء کی بیری کا درخت )کی سیر کرائی گئی۔ اس درخت پر شان ربانی کا پَر تو تھا ،جس سے اُس درخت کی ہیت تبدیل ہوگئی اور پھر اُس میں حسن کی وہ کیفیت پیدا ہوئی جس کو کوئی زبان لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی ۔اُس میں انواروتجلیات کے ایسے رنگ ظاہر ہوئے جوزبان وبیان سے باہر ہیں ۔اسی مقام پر حضرت جبریل علیہ السلام کو آپ نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا۔شبلی نعمانی نے سیرۃ النبی میں لکھا ہے :
’’ پھر شاہدمستورِ ازل نے چہرہ سے پردہ اٹھایا اور خلوت گاہ ِراز میں ناز ونیاز کے وہ پیغام ادا ہوئے ،جن کی لطافت ونزاکت الفاظ کے بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکتی ،فاوحیٰ الیٰ عبدہٖ مااوحیٰ ‘‘۔
پھر جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئی ،پھر آپ کی واپسی ہوئی ۔بعض روایات میں آتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات کو نمازکی امامت واپسی پر کرائی ۔حافظ ابن کثیر ؒ اور کئی دیگر علمائے کرام کا رجحان اسی طرف ہے،لیکن اکثر یت کے نزدیک جاتے ہوئے امامت کے فرائض انجام دئیے گئے ۔واللہ اعلم ۔
یہاں تک صحیح روایات کی روشنی میں ہم نے واقعہ معراج بیان کردیا ہے ۔اب آتے ہیں کہ دورِ حاضر میں جب مسلمان چہار عالم میں ذلت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں ،ہر سُو خونِ مسلم پانی کی طرح بہایا جارہا ہے ۔اہل یورپ جانوروں کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کے خون کی اُن کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ۔روہنگیا،کشمیر ،فلسطین ،لیبیا،عراق ،شام اور افغانستان کا حالیہ واقعہ ،پاکستان میں خود کش حملے ،قتل وغارتگری ،یمن کی حالت زار،کس سے ڈھکی چھپی ہے؟اہل عرب مندر بنا کر خوشی کا اظہار کررہے ہیں اور ہندوستان میں مودی سرکار مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف عمل ہے ۔چہارعالم نظر دوڑا کر مسلمانوں کی موجودہ حالت ِ زار دیکھ کر ہم اس پر غوروفکر کرتے ہیں کہ واقعہ معراج سے ہمیں سبق کیا ملتا ہے ؟
علامہ اقبالؒ نے فرمایا :
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میںہے گردوں
حدیث میںہے، نبی کریم نے اپنے معراج کے سفر کو ’’عُرج بی‘‘سے بیان فرمایا،یعنی اوپر چڑھنا،بلند ی کی طرف جانا ،سیڑھی چڑھنا ۔واقعہ معراج امت مسلمہ کو یہ سبق دیتا ہے کہ جس طرح نبی کریم کو اللہ تعالیٰ نے معراج کرائی ،رسول اللہ کی نبوت وہبی ،آپ کا سفر معراج بھی وہبی ،لیکن ہم کسب کے مکلف ہیں ،تو ہمیں عروج بھی کسبی ملے گا اور اُس کے لیے ہمیں خود محنت کرنا ہوگی ۔اُس کے لیے سب سے اہم شئے جو ہے وہ یہ ہے کہ ہم دین اسلام کے احکامات کی پابندی کرتے ہوئے جدید علوم سیکھیں اور اُن میں اپنا مقام بنائیں ،اپنی صلاحیتوں کو تعمیری کاموں میںصَرف کریں اور اس کے لیے وسیع ذرائع کے موجود ہونے کا انتظار مت کریں بلکہ محدود وسائل کو استعمال میں لاکر تھوڑا کام کریں اور اسی کام کو نئے طرز سے ،کم وسائل میں ہونے والے کام میں جدت کے طریقے اپنے ذہن سے اختراع کریں ۔اس وقت پوری امت مسلمہ کی نظر وطن عزیز پاکستان پر جمی ہوئی ہے ،اور یہ وقت ہے کہ پاکستان کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر دنیا میں اپنا سکہ منوائیں اور اسلامی دنیا کی رہنمائی کریں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے احکامات اور پیغمبر اسلام کے فرمودات پر عمل کرنے اور خلفائے راشدین ؓ کے طرز حیات کواپنانے کی توفیق نصیب کرے۔آمین۔