عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
یہ اس فلم کا نام ہے جسے میں نے 40برس قبل ریاض کے ایک سینما گھر میں دیکھا تھا۔معمولی وجہ سے یہ نام میری یادداشت میں محفوظ ہوگیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سینما پر پابندی نہیں لگی تھی۔ سینما گھروں کے دروازے بند نہیں کئے گئے تھے۔ سماجی زندگی کی ناکہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ یہ ساری پابندیاں 1979ءمیں ایرانی انقلاب کے بعد عائد ہوئیں۔
اس سے ایک سال قبل تعلیم کیلئے میں امریکہ گیا۔ میں نجات یافتہ فرقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ تبدیلیوں نے میرے اوپر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ البتہ آنے والی تبدیلیوں نے میرے بعد آنے والی نسل کو بدل ڈالا۔
ریاض آج کے مقابلے میں اسوقت چھوٹا سا شہر ہوا کرتا تھا۔ اس کی آبادی 5لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ریاض کے اسپورٹس کلبز میں 3سینما گھر ہوا کرتے تھے جہاں چائے،ٹھنڈے مشروبات اورپنیر کے سینڈوچ صارفین کو پیش کئے جاتے تھے۔ سینما گھر منظم تھے۔ ٹکٹ دروازے پر ملتے ۔ فلموں کے پوسٹر داخلی دروازوں پر چسپاں ہوتے۔ سب سے بڑے سینما گھر میں 150نشستوں کی گنجائش ہوا کرتی۔ ویک اینڈ پر 2 فلمیں پیش کی جاتیں۔ ایک عربی فلم ہوتی اور ایک ڈبنگ کی ہوئی امریکی فلم دکھائی جاتی۔ عام دنوں میں ایک فلم پیش کی جاتی۔ عام طور پر سینما ہال بھرا ہوا ہوتا۔ شائقین سگریٹ کا دھواں اڑا کر ہمارا دم گھونٹ دیتے تھے۔ جذباتی مناظر آتے یا ہیرو کا کوئی شاندار کام سامنے آتا تو تالیاں او رسیٹیاں بجا کر داد دی جاتی۔ کبھی کبھی مغربی دنیا کی 10برس پرانی فلمیں ریاض آیا کرتی تھیں۔ اسکے باوجود ہمیں وہ فلمیں اچھی لگتی تھیں۔
آگے چل کر منحوس انقلاب کے بعد ریاض وہ شہر نہیں رہا جسے خیر باد کہہ کر میں تعلیم کیلئے امریکہ گیا تھا۔ ریاض شہر گھٹا ہوا شہر بن گیا۔ انتہا پسندوں نے ہر طرف سے اسکا دم گھونٹ دیا۔ سارا سماجی منظر تبدیل ہوگیا۔ شدت پسندوں کا غلبہ ہوگیا۔ دنیا کے دیندار ترین شہروں میں سرفہرست آگیا۔
اس سے قبل چھٹے اور ساتویں عشروں میں ریاض شہر سادہ تھا۔ اسکے باشندوں کیلئے گنی چنی سرگرمیاں روزی روٹی کیلئے کافی ہوتی تھیں۔ محمد علی کلے کے آنے کا پروگرام بنا تو ہم نے ریاض کے واٹر ٹاور کے پاس انکا انتظار انتہائی اشتیاق کے ساتھ کیا۔ الہلال فٹبال کلب نے برازیل کے انٹرنیشنل کھلاڑی ریبیرینو کو مدعو کیا۔ وہ منظر بھی قابل دید تھا۔ اسٹیڈیم میچ دیکھنے والوںسے اٹے رہتے تھے۔ رمضان المبارک کی راتیں کھیلوں کے مقابلوں سے آباد رہتیں۔ کہیں باسکٹ بال کا مقابلہ چل رہا ہوتا تو کہیں والی بال کا مقابلہ چلتا ۔ لوگ اتنے ہوتے کہ ہمیں نہ تو بیٹھنے کی جگہ ملتی نہ کھڑے ہونے کی۔
سعودی دارالحکومت میں تفریح کے بھی وسائل مہیا ہوتے تھے۔ سینما گھروں کے علاوہ فلمیں کرائے پر جاری کرنے والی دکانیں تھیں۔ المربع محلے میں اس طرح کی دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ ویک اینڈ پر پردے پر فلمیں دکھانے کا بھی رواج تھا۔ شہر کی حالت معاشی اعتبار سے بہت زیادہ تفریحی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتی تھیں اس کے باوجود اس زمانے میں فنکاروں کی تقریبات ہوتیں۔ تہواروں کے موقع پر عسکری موسیقی ٹیمیں چلتیں اور عوامی تقریبات منعقد کی جاتیں۔
روا داری کا یہ جذبہ رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا گیا۔ افغانستان کی جنگ میں جہاد کے نغموں نے ہر گانے کے اوپر غلبہ حاصل کرلیا۔ مدارس، مساجد کو سیاست زدہ کردیا۔ دانشور سمٹ گئے۔ روشن دماغ افراد نوجوانوں کی ایسی نسل کے تسلط کے آگے لیٹ گئے جو عوامی اور سرکاری تقریبات ہی نہیں مساجد کے منبروں سے بھی کھلم کھلا کفرکے فتوے جاری کرتے۔
ہر قوم سیاسی سماجی نشیب و فراز سے گزرتی رہی ہے۔ ان سے یا تو وہ طاقتور بن کر نکلتی ہے یا شکست و ریخت کا شکار ہوجاتی ہے۔ سعودی عرب ان دنوں سخت تجربے سے سربلند ہوکر نکلنے کا خواہاں ہے۔ نادانی کے دور سے آزاد ہونا چاہتا ہے جس نے ترقی کا باب بند کردیا اور جس نے معاشرے کو پیچھے کی جانب دھکیل دیا۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ بات بجا طور پر کہی کہ ہم 1979ءکی طرف لوٹ رہے ہیں۔ کوئی نئی چیز نہیں لارہے ہیں۔ آج کے بعد ہم انتہا پسندانہ افکار کے تسلط کی اجازت نہیں دینگے۔ محمد بن سلمان یہ کہہ کر دراصل 1979ءسے پہلے اور اسکے بعد کے ادوار کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پاٹنے کا عزم ظاہر کررہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭