Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جی ہاں سب سے پہلے سعودی عرب

خالد عبداللہ الجار اللہ ۔ الریاض 
آئندہ مرحلے میں ہمارا نعرہ ہو کہ” سب سے پہلے سعودی عرب“ ۔امن و استحکام کا معاملہ ہو یا عوام کی خوشحالی اور اقتصادی بہتری کا مسئلہ ہو،سعودی عرب سب سے پہلے ہونا ضروری ہے۔ بعض لوگ اس بات کا برا مناتے ہیں کہ سب سے پہلے سعودی عرب کا نعرہ کیوں دیا جارہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ناگواری اس کے باوجود ہے کہ یہ اہلِ سعودی عرب کا بنیادی اور سب سے معمولی درجے کا حق ہے۔ ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ ہم ہر جگہ اور ہر وقت یہ نعرہ لگائیں۔ اپنے بچوں کو اس کا درس دیں۔ مختلف شعبوں کی سعودائزیشن اس کی بدولت روبعمل لائیں۔ ایسے شعبے جن میں سعودیوں کو کنارے کردیا گیا ہے اور غیر ملکیوں کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں، سب سے پہلے سعودیوں کی تقرری لازمی ہے۔
دنیا کے تمام ممالک کی قیادت اپنے عوام کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کرتی ہے ۔ اس کے باقی بچ جانے والی آسامیاں غیر ملکیوں سے پر کی جاتی ہیں۔ ایسا کوئی بھی شعبہ جسے آگے بڑھانے اور چلانے کیلئے مقامی شہری مہیا ہوتے ہیں انکے لئے سب سے پہلے مقامی شہریوں کو ہی موقع دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے پر کبھی کسی نے کسی بھی ملک کے خلاف نسلی تفریق کا نہ الزام لگایا اور نہ ہی اس حوالے سے کسی بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سعودی عرب کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں جب بھی سعودی شہریوں کو ترجیح دینے کی بات ہوتی ہے تو ہم پر نسلی تفریق کا الزام لگادیا جاتا ہے۔ ہم سے مطالبہ ہوتا ہے کہ یہ بات کیوں نہیں سمجھی جاتی کہ سعودی عرب سب کا ہے اور مقامی شہریوں کو تارکین پر ترجیح دیناد رست نہیں۔
جب جب باہر کے ملکوں سے درآمد کئے جانے والے کارکنان کی نوعیت کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ انکے پاس معمولی درجے کا ہنر بھی نہیں اور یہ بات بھی ریکارڈ پر آجاتی ہے کہ یہ غیر ملکی کارکن ہمارے یہاں آکر ہنر حاصل کرکے اس کی تربیت لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ کلیدی شعبوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ پھر اقتدار کا ڈنڈا گھمانے لگتے ہیں۔ نجی اداروں کے اندر گروپ تشکیل دیدیتے ہیں۔ اپنے ہموطنوں کے بل پر سعودی لڑکوں اور لڑکیوں کو ملازمت حاصل کرنے کی راہ میں دیوارِ چین بن جاتے ہیں۔ انہیں گھماتے پھراتے رہتے ہیں۔ معمولی درجے کی ملازمتیں دے کر انہیں ٹرخا دیتے ہیں۔ جہاں تک انتظامی اور تکنیکی عہدوں کا تعلق ہے تو اس سے انہیں دور رکھتے ہیں۔ اسکے ذمہ دار بعض سرمایہ کار بھی ہیں جو غیر ملکیوں سے اس سلسلے میں تعاون کرتے ہیں اور اس کے ذمہ دار وہ سعودی شہری بھی ہیں جو غیر ملکیوں کو وطن عزیز میں بدعنوانی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
افرادی قوت کی درآمد سے متعلق 2 باتیں بہت واضح ہونی چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ افرادی قوت تجربہ کار ہو ۔ دوسری بات یہ کہ ترقی یافتہ ممالک سے عملہ درآمد کیاجائے۔ ایک بات یہ بھی کہ غیر ملکی کارکن محدود مدت کیلئے ہی درآمد کئے جائیں۔ مقامی شہریوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے۔ انہیں کلیدی عہدوں پر فائز کرنے کیلئے خصوصی کور س کرائے جائیں۔
میں نے آٹھویں عشرے کے وسط میں ذاتی طور پر سعودی ٹیلیفون کے ساتھ کینیڈا کی کمپنی بل کینیڈا کا تجربہ کیا ہے۔ اس کمپنی سے جو معاہدہ ہوا تھا اس میں طے کیاگیا تھا کہ بل کینیڈا کمپنی ٹرانسفر ٹیکنالوجی کی پابندی کریگی۔ واضح الفاظ میں اسکا مطلب یہ تھا کہ کینیڈا کے ماہرین سعودی شہریوں کو 2 برس تک ٹریننگ دینگے۔ وہ اس دوران ملازم بھی ہونگے اور پھر سعودی شہری براہ راست ڈیوٹی سنبھال لیں گے۔ لاگت زیادہ ہونے کے باوجود اس قسم کے معاہدے سعودائزیشن کے حوالے سے نہایت موثر اور مفید ثابت ہوئے۔ اس کی بدولت ہزاروں سعودی نوجوان کلیدی عہدوں کے اہل بنے۔
آج ہمارے پاس جامعات سے فارغ دسیوں ہزار نوجوان ہیں ۔ یہ سعودی اور عالمی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ ملازمت کے منتظر ہیں۔ بہتر ہوگا کہ سعودی تاجر، صنعت کار ، سرمایہ کار، نجی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدیدار اور سرکاری شعبوں کے منصب دار، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے نقش قدم پر چلیں اور سعودی وژن 2030کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مطلوبہ کردار ادا کریں۔ نوجوانو ںکو تربیت دیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں سعودی نوجوانوں کو روزگار کے تقاضے پورے کرنے کا اہل بنائیں۔ انکی سرپرستی کریں۔ حوصلہ دیں اور ہموطنی کے جذبے کو اوپر رکھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: