محمد مبشر انوار
آج کل ووٹ کی عزت کا ڈھنڈورا بڑے زور و شور سے پیٹا جا رہا ہے اور ہر طرف سے ایک ہی آواز کانوں میں سنائی دے رہی ہے کہ ووٹ کو عزت دو وگرنہ یہ ملک کیلئے خطرناک ہو گا۔ ایک ایسے ملک کیلئے ،جس کا معرض وجود میں آنا ہی ووٹ کی بنیاد پر تھا۔آج اس ملک پر حکومت کرنے والے یہ شور مچا رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو،بظاہر حیرانگی کی بات لگتی ہے مگر اس حیرانگی کے پیچھے جو واردات ہے،وہ اس سے زیادہ حیران کن کی بجائے شرمناک ہے۔ اب تو یہ لکھتے اور کہتے بھی شرم آتی ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات و اقتدار کی خاطر ،فوج سے مل کر پہلے جمہوریت کو زہر دیا اور بعد ازاں فوجی نرسری میں پلے بڑھے لیکن آج جب اپنے قد سے بڑھ کر باتیں کرتے ہیں یا ملکی مفادات کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کے در پے ہیں،تو ان کے بقول وہی فوج انہیں ان کی اوقات میں لا رہی ہے اور ان کی چیخیں آسمان تک جاتی سنائی دے رہی ہیں۔ معاملہ اگر یہیں تک ہوتا تو ممکن تھا کہ کہیں نہ کہیں معافی تلافی بھی ہو جاتی لیکن فوج کے پروردہ ان خود ساختہ سیاستدانوں کو یہ زعم ستانے لگاہے کہ آج وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہیں اس لئے وہ ووٹ کے تقدس کا واویلا مچا کر عوام کو اپنے ساتھ ملا لیں گے۔ دوسری وجہ اس سے بھی زیادہ اہم اور معنی خیزہے کہ پاکستان کی سیاست قومی سطح پر اگر شخصیت پرستی کے گرد گھومتی ہے تو مقامی سطح پر اس کا دائرہ کار قدرے مختلف ہو جاتا ہے کہ حلقہ کی سیاست میں کامیابی کا پیمانہ قدرے مختلف ہے اور وہی سورج مکھی کے پھول والی سوچ زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے جو قومی سطح کی شخصیت پرستی کے تاثر کی نفی بھی کر تی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی حلقے کا مضبوط امیدوار ،ہوا کے رخ کے مطابق قبل از وقت ہی اپنا قبلہ بدل لیتا ہے،مخالفین بھلے اسے لوٹا کہیں،بکاؤ مال کہیں یا کسی بھی نام سے پکاریں،اسے اس سے رتی برابر غرض نہیں ہوتی اس کا مطمع نظر فقط اور فقط اپنی نشست کو بچانا ہوتا ہے،جس میں وہ بالعموم کامیاب رہتا ہے۔ قبلہ بدلنے کے پیچھے موجود محرکات کا جائزہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ اس کی اپنی سیاسی سوچ ،نظریات یا فہم کا کیا کردار رہا ہے یا اس کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں؟
آج ووٹ کی عزت کا واویلا کرنے والوں کا سب سے بڑا دکھ ہی یہی ہے کہ ان کے’’ الیکٹ ایبلز ‘‘ کو ہانکا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے درحقیقت فوج ہے،جو عدلیہ کی آڑ میں یہ سارا کھیل رچا رہی ہے۔ بظاہر مسلم لیگ ن یہ ثابت کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے کہ اس سارے کھیل کے پیچھے فوج کا کوئی کردار ہے لیکن فوج کے کردار سے یکسر انکار بھی ممکن نہیں کہ فوج بھی اقتدار کے کھیل میں ایک اہم ترین فریق ہمیشہ سے رہی ہے۔ آج اگر فوج پس پردہ ہے تو اس کے بھی کچھ محرکات ہیں کہ فوج کا جو کردار پاکستانی سیاست میں رہا ہے اور جس حد تک فوج سیاست میں دخیل رہی ہے،اس کے نقوش آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ،لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ صرف اتنا کہہ دینے سے سویلین قیادت کو بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔میں ہمیشہ سے اس چیز کا قائل ہوں کہ اگر فوج نے سویلین قیادت کو خراب کیا ہے تو میں ایسی سویلین قیادت کو قیادت ماننے سے ہی انکاری ہوںجو اس حقیقت کا ہی ادراک نہ کرسکے کہ اس کی ماتحت فوج اس سے کیا کیا گل کھلوا رہی ہے،اور وہ آنکھیں بند کئے انکی ہر بات پر آمین کرتا چلا جائے،ایسی قیادت کو قیادت نہیں کہا جا سکتا۔ یہ فوجی قیادت ہی تھی جس نے 80کی دہائی میں ایک وفاقی سیاسی جماعت کے مقابلے پر ایک نو آموز کو اتارا،جس نے سیاست کے تمام اصول و ضوابط،قاعدے و قوانین کونہ صرف روند کر رکھ دیا بلکہ سیاست سے شرافت کے عنصر کو ہی اچک لیا۔اسوقت کی مقتدرہ نے اسے اقتدار میں لانے کیلئے ایسی ایسی اصطلاحیں(کمتر برائی کا انتخاب) متعارف کروائیں کہ آج وہ ہمارے گلے کا طوق بن کر ہمارا مذاق اڑا رہی ہیں،جس میں سر فہرست تو ایسے ایسے لوگوں کو اقتدار کی سیڑھی چڑھایا گیا،جن کا کسی بھی مہذب معاشرے میں ٹھکانہ جیل سے کم نہ ہوتا اور جیل بھی ایسی کہ ساری زندگی ہی چکی پیستے گزرتی۔ معروف سیاسی قیادت کو ایک طرف سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا تو دوسری طرف اسکی کردار کشی میں بھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔جب ان گھناؤنی حرکات سے بھی مراد پوری نہ ہوئی تو انتخابی مہم میںایک اور طرز کی اختراع ڈالی گئی اورمخالف سیاسی جماعت کو زیر کرنے کیلئے ایسے امیدواروں کا انتخاب کیا گیا،جن کی شہرت انتہائی داغدار قسم کی رہی مگر روپے پیسے کے بل بوتے پر وہ قوم کے رہنما بن گئے۔
دوسری طرف صورتحال اس سے بھی خراب ہے کہ تحریک انصاف ،جو تبدیلی کی دعویدار ہے،اس میں یہی چہرے کسی نہ کسی طور دوبارہ نظر آ رہے ہیں اور اسکے وہ نظریاتی کارکن جو تبدیلی کی خاطر اس جماعت میں شامل ہوئے تھے،اس وقت پھر پچھلی صفوں میں دھکیل دئیے گئے ہیں۔ وہی چہرے جو مشرف کے ہمرکاب تھے ،جو زرداری کے ساتھ رہے اور پھر نواز شریف کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کی حکومت کے مزے اڑاتے رہے،تقریباً وہی آج عمران خان کے ساتھ ہیں جبکہ اس وقت جو ماحول بن چکا ہے،ضرورت اس امر کی تھی کہ عمران خان ایسے موقع پرستوں کو ساتھ ملانے کی بجائے،انہیں سختی سے رد کر دیتے اور عام کارکنوں میں سے الیکٹ ایبلز بناتے ۔ بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان جن الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملا رہے ہیں،انتخابی ٹکٹس بھی انہی میں تقسیم ہونگے اور جس طرح کے پی میں تحریک انصاف کے اراکین صوبائی قیادت کو مورود الزام ٹھہرا رہے ہیں اور مرکزی قیادت ان پر الزامات لگا رہی ہے،تبدیلی کا خواب ہنوز خواب دکھائی دیتاہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کا الزام اور سراج الحق کا یہ کہنا کہ انہیں ’’اوپر‘‘ سے حکم ملا تھا،فوج کے پس پردہ ملوث ہونے کا اشارہ دے رہا ہے،در حقیقت افسوس اسی بات کاہے کہ فوج کی طرف سے تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود ایسے اشاروں کا ملنا انتہائی افسوسناک امر ہے اور اگر اس الزام میں رتی برابر بھی حقیقت ہے تو فوج نے ابھی تک ماضی سے کچھ نہیں سیکھااورر فوج کی تمام یقین دہانیاں غلط ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام کو یہ شعور دیا جاتاکہ وہ اپنے حق کی خاطر کھڑے ہوں،اپنے بنیادی حقوق کی خاطر اپنے قائدین سے استفسار کر سکیں،صحت و تعلیم و روزگار سے متعلق اپنا حق مانگ سکیں،شخصیت پرستی کا بت توڑ کر ملکی مفاد کو مد نظر رکھیں،ان کی تربیت اس انداز میں کی جاتی کہ وہ اپنے رہنماؤں کو 80/90کی سیاست سے دور کرنے میں کامیاب ہوتے اور اپنی جماعتوں کو مجبور کرتے کہ وہ انہیں ایسے امیدوار مہیا کریں جن کی ساکھ دوسری جماعت کے امیدواروں سے بہتر ہو،جو ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھتے ہوں،جن کے تمام ترا سٹیک ملک کے اندر ہوں لیکن آج بھی عوام کی ایسی تربیت نظر نہیں آ رہی اور وہ شخصیت پرستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ کمتر برائی کا انتخاب کرنے کے فلسفے کی اس روش سے فی الوقت چھٹکارا ممکن نظر نہیں آتا اور اگلی منتخب شدہ اسمبلی بھی کمتر برائی کے فلسفے پر ہی منتخب ہو گی۔
مزید پڑھیں:- - - - -نواز و مریم خطرناک راہ پر