Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارکین کے اہل خانہ کا مملکت میں رہنا فائدہ مند

راشد بن محمد الفوزان ۔ الریاض
سعودی عرب نے مقیم غیرملکیوں پر ”مرافقین ٹیکس“ لگادیا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ کیا ہے۔ اسکی تفصیلات کا ہر ایک کو علم ہے۔ یہ ہر سال بڑھے گا۔ پہلے برس 100ریال، اگلے سال 200اور 2020ءتک فی کس 400ریال ماہانہ وصول کیا جائیگا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی غیر ملکی کے ایک بیوی اور 3بچے ہو ں تو اسے 2018ءکے دوران ماہانہ 800ریال ادا کرنا ہونگے۔ سال میں 9600ریال دینا ہونگے۔ بعض حضرات اس رقم کو ہائی انکم گروپ لوگوں کے حوالے یا متوسط درجے کی آمدنی رکھنے والوں کو مدنظر رکھ کر معمولی سمجھ رہے ہیں جبکہ معمولی آمدنی والوں کیلئے اسے بہت زیادہ بڑی رقم قرار دے رہے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ بہت سارے ممالک کو اقتصادی لحاظ سے ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو خرچ کریں اور دولت کو گردش میں رکھیں۔ خاص طور پر تارکین وطن سے رقم خر چ کرانے کی ضرورت متعدد ممالک کو محسوس ہوتی ہے۔ انکے پیش نظر اصول یہ ہوتا ہے کہ تارکین وطن ملکی معیشت سے جو کچھ لے رہے ہیں زیادہ سے زیادہ اندرون ملک ہی خرچ کردیں تاکہ ملک سے زرمبادلہ بھاری مقدار میں باہر نہ جائے۔ جہاں تک ”مرافقین فیس“ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں صورتحال مختلف ہے۔ یہ فیس معمولی ، متوسط درجے اور اعلیٰ درجے کی آمدنی والوں سے یعنی سب سے لی جارہی ہے ۔ میرے خیال میں اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
میرے نکتہ نظر سے اسکا پہلا نقصان یہ ہوگا کہ تارکین وطن اندرون مملکت اپنے اخراجات کم کردیں گے جبکہ ملکی معیشت کو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تارکین وطن اپنی آمدنی کا بڑا حصہ سعودی عرب ہی میں خرچ کردیں۔ تارکین وطن کے اس عمل کی بدولت اقتصادی شرح نمو میں بڑی مدد ملتی ہے۔ میں نے جو بات کہی ہے اس کے کئی اسباب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ اقتصادی شرح نمو کے لئے اقتصادی اخراجات کو برقرار رکھنا مسلمہ امر ہے۔ غیر ملکی خاندانوں کی قوت خرید کا معیشت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ بہت سارے ممالک کو ایسے تارکین کی ضرورت پیش آتی ہے جو ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے اشیائے صرف خریدتے رہے، طلب کرتے رہیں۔ ہم ابھی اس منزل تک نہیں پہنچے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے یہاں غیر ملکی کارکن حد سے زیادہ ہیں تاہم میں یہ نہیں مانتا کہ حد سے زیادہ موجود کارکن سعودی معیشت کا سہارا بنتے ہوں۔ میری مراد ان لوگوں سے ہے جو باقاعدہ ملازم ہیں اور جو سعودی عرب میں اپنے اہل خانہ کو لاتے ہیں۔ یہ لوگ ان میں شامل نہیں جو مکان کرائے پر حاصل کرتے ہیں ۔ گاڑیاں خریدتے ہیں ۔ بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں اسی طرح کے اور متعدد اخراجات کرتے ہیں۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ موبائل استعمال کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ 20فیصد آمدنی نہیں بچا پاتے۔ تنہا رہنے والوں کا معاملہ انکے برعکس ہے۔ 
یہاں میں ایک تجویز دینا چاہوں گا ۔ تجویز یہ نہیں کہ مرافقین فیس کا فیصلہ کالعدم کردیا جائے ۔ تجویز یہ ہے کہ مقیم غیر ملکی کو اپنی فیملی لانے کے سلسلے میں یہ شرط عائد کی جائے کہ اس کی کم از کم آمدنی4ہزار ریال ہو۔ ایسا غیر ملکی جس کی ماہانہ آمدنی4ہزار ریال نہ ہو اسے فیملی ویزہ نہ دیا جائے کیونکہ اس سے کم آمدنی والے قوت خرید کے حامل نہیں ہوتے۔ اگر اس سے کم آمدنی والے کو فیملی لانے کی اجازت ہوگی تو وہ غیر قانونی سرگرمیوں کا سہار ا لیکر آمدنی بڑھانے کے چکر میں رہیگا۔ فیملی ویزہ اسی کو دیا جائے جو 5ہزار ریال سے زیادہ کما رہا ہو ۔ ایسا شخص 3افراد تک لانے کا مجاز ہو جبکہ 7ہزار ریال سے زیادہ آمدنی والے کو 4افراد لانے کی اجازت ہو۔ جن لوگوں کی تنخواہ 8ہزار ریال سے زیادہ ہو ان پر مرافقین ٹیکس عائد کیا جائے۔ ایسا کرنے سے تارکین وطن پر ٹیکس کے اندر توازن آئیگا۔ موجودہ صورتحال کی صحیح تصویر امسال اسکولوں کی سالانہ تعطیلات کے بعد آشکار ہوگی۔ خاص طور پر آنے والے سال کی شروعات پر سارا منظر نامہ کھل کر سامنے آجائیگا۔ رمضان کے بعد بھی حقائق اجاگر ہونگے۔ ہمیں تارکین وطن کے حالات کی تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کی حاجت ہے کہ وہ اپنی آمدنی کاکچھ حصہ یہاں خرچ کرے نہ کہ ترسیل زر کی صورت میں اپنے ملک بھجوا دے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: