مرام مکاوی۔ الوطن
رواں تعلیمی سال ختم ہوا چاہتا ہے۔اختتام سے قبل والدین آئندہ تعلیمی سال کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔خاص طور پر وہ والدین جن کے بچے نجی اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ لوگ خود سے سوال کررہے ہیں کہ کیا میں اپنے بیٹے یا بیٹی کو نجی اسکول میں برقرار رکھوں یا کسی اور اسکول کا رخ کروں؟ کیا آئندہ سال تعلیمی فیس میں اضافہ ہوگا؟ کیا مختلف عنوانوں سے ان سے مزید رقوم نہیں طلب کی جائیں گی؟ کیا تعلیمی فیس اور مختلف سرگرمیوں کے عنوان سے طلب کی جانیوالی رقم اسکول خدمات سے متناسب بھی ہوگی یا نہیں؟۔
والدین کے پیش نظر ہمیشہ یہی رہتا ہے کہ ان کی اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے خواہ اس مقصد کیلئے انہیں بعض آسائشوں سے دستبردار ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔
متوسط درجے کے طبقے اور اس میں بھی اعلیٰ درجے کے طبقے کے بچوں میں یہ بات عام ہے کہ اچھی تعلیم کے بغیروہ باوقار زندگی نہیں گزار سکتے۔ والدین نرسری سے لیکر ثانوی اسکول کے اختتام تک اپنے بچوں پر جتنا کچھ خرچ کرتے ہیں،اس کا ایک ہدف یہ بھی ہوتا ہے کہ اچھی استعداد اور اچھی تعلیم کی بنیاد پر انکی اولاد اچھے اسکولوں میں داخل ہوسکے گی اور وہاں سے فراغت پر عمدہ تنخواہ پر کام کرسکے گی۔
بعض والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون مملکت بھیجتے ہیں۔ ان کے داخلے اعلیٰ جامعات میں ہوجاتے ہیں۔ اس بنیاد پر بھی بعض والدین اسکول کی تعلیم کے دوران بچوں میں انگریزی کی لیاقت پیدا کرنے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر بچوں کی انگریزی اچھی نہیں ہوتی تو پہلے مرحلے میں ان کے داخلے باہر نہیں ہوپاتے۔ انگریزی اچھی نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ علمی لیاقت بھی نہیں مل پاتی۔والدین اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے ایسے اسکولوں کا رخ جان بوجھ کر کرتے ہیں جہاں انگریزی میں تعلیم دی جاتی ، جن کی عمارتیںصاف ستھری ہوں، جہاں انکی اولاد کے ساتھ اعلیٰ درجے کا انسانی سلوک کیاجاتا ہو، غیر معیاری گفت و شنید اور اخلاقی انحطاط سے واسطہ نہ پڑتا ہو۔
آپ جب بھی والدین سے گفتگو کرینگے تو بیشتر کویہی شکوہ کرتے ہوئے سنیں گے کہ ہمارے اسکولوں کا معیار اچھا نہیں، خدمات نامناسب ہیں۔ اخراجات بے شمار ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی باور کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ معیار کی خاطر بھار ی سے بھاری قیمت چکانے کیلئے تیار ہیں۔ والدین اس چکر میں 12سالہ تعلیمی دورانیے میں 6سے 7اسکول تبدیل کرلیتے ہیں۔ وہ ایسا کرکے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک اسکول سے دوسرے اسکول منتقل کرنے سے بچوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ میں ایسے کئی خاندانوں کو جانتی ہوں جنہوں نے نجی اسکولوں سے مایوس ہوکر اپنے بچوں کو ماڈل سرکاری اسکولوں میں داخل کرایا۔انہوں نے اس یقین کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں داخلہ دلایا تھا کہ اب ان کا بچہ آگے نہیں جاسکے گا۔ مفت تعلیم دینے والے اسکول کیا دینگے مگر جب انہوں نے داخلہ دلایا اور وہاں تعلیم اور خدمات کا معیار بہتر پایا تو نجی اسکولوں پر خرچ کی جانے والی بھاری رقم پر کف افسوس ملنے لگے۔
سوال یہ ہے کہ سعودی وزارت تعلیم معیاری تعلیم کے آرزومند والدین کو مناسب اسکول کی تلاش کے سفر میں کیا مدد دے سکتی ہے۔ بعض ترقی یافتہ ممالک مثال کے طور پر برطانیہ ہر پہلو پر نظر رکھ کر اسکولوں کی درجہ بندی کرتا ہے۔ والدین کو رجسٹریشن سے قبل پتہ ہوتا ہے کہ وہ جس اسکول کا رخ کررہے ہیں اس کی خوبیاں کیاہیں اورخامیاں کیا ہے۔ یہ درجہ بندی سرکاری اور نجی دونوں اسکولوں کی ہوتی ہے۔ کیا اس تجربے کے تناظر میں سعودی وزارت تعلیم نجی اسکولوں کو سالانہ رپورٹیں جاری کرنے کا پابند نہیں بنا سکتی؟کیا ایسا کوئی طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاسکتاکہ فلاں اسکول سے فارغ ہونیوالے طلبہ کہاں ، کس شکل میں کھپ رہے ہیں؟۔
میں جدہ کے ایک قدیم اسکول کو جانتی ہوں جو ایسا ہی کرتا ہے۔ گزشتہ 40برس کے دوران اس سے فارغ ہونے والے طلبہ کن کن جامعات سے منسلک ہوئے اور کن کن عہدوں پر فائز ہوئے، اُس کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ دیگر اسکول بھی ایسا کرسکتے ہیں۔
موجودہ وقت میں والدین کے سامنے سوشل میڈیا سے استفادے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ واٹس ایپ گروپ پر لوگ ایک دوسرے سے سوال کرکے دریافت کرتے ہیں کہ فلاں اسکول کیسا ہے ؟ اس کا تعلیمی معیار کیسا ہے؟
بہتر ہوگا کہ وہ کام جو غیر منظم شکل میں انجام دیا جارہا ہے حکومت اسے اپنے ہاتھ میں لیکر منظم کردے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭