Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک کارتوس چلائے بغیر فتح یابی

عبدالرحمن الراشد۔ الشرق الاوسط
امریکہ کے نئے وزیر خارجہ مائیک پومپیونے دفتر خارجہ کے اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” ہم مشکل حالات سے گزررہے ہیں۔ ہمیں خطرات کا مقابلہ جرا¿ت اور قوت سے کرنا ہے۔ ہمیں شام، یمن او رخطے میں استحکام کو متزلزل کرنےوالے ایرانی تصرفات کو لگام لگانے کیلئے مشرق وسطیٰ میں زبردست سفارتی مہم چلانا ہوگی۔امریکہ اپنے دشمن کے کسی بھی نظام کو کمزور کرنے بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑنے تک کی زبردست طاقت رکھتا ہے۔ امریکہ یہ کام ایک کارتوس چلائے بغیر انجام دے سکتا ہے“۔
پومپیو کا یہی کہنا ہے۔ یہی سب کچھ 2006ءمیں اس وقت انجام پا جاتا جب امریکہ نے ایران پر سے پابندیاں اٹھائی تھیں۔ ایران پر امریکہ نے جو پابندیاں عائد کی تھیں ان میں یہ بھی تھا کہ ریفائنڈ تیل مصنوعات سمیت بہت ساری چیزیں ایران برآمد کرنے کی ممانعت کردی گئی تھی۔ ایران مذکورہ اشیاءکا 50فیصد امریکہ سے درآمد کررہا تھا۔ امریکہ نے بینک معاملات پر قدغن لگادی تھی۔ امریکہ نے ایران اور دنیا کے بیشتر بینکوں کے درمیان دولت کی گردش معطل کردی تھی۔ عالمی تیل کمپنیوں کو ایران میں پیداوار سے روکنے کیلئے تعاقب کی دھمکی دے رکھی تھی۔ امریکہ نے ایرانی آئل ٹینکرز کو انشورنس جاری کرنے پر روک لگادی تھی۔ امریکہ نے انٹرنیٹ خدمات اور ویب سائٹس کے اندراج سمیت تمام معاملات کے سدباب کے طور پر الیکٹرانک دیوار تعمیر کردی تھی۔ ایرانی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ نہ کاروبار کرسکتا تھا، نہ اشیاءدرآمد کرنے کی پوزیشن میں تھا اور نہ ہی اپنے شہریوں کی ضروریات فراہم کرنے کی اہلیت رکھتا تھا۔
یہ سارے وسائل پیچیدہ سفارتی عمل اور طویل سیاسی صبر و تحمل کے متقاضی ہیں۔ یہ کام باخبر سراغ رساں اداروںکا ہے جو فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے دقیق ترین نشاندہی کی مہارت رکھتے ہیں۔ امریکہ نے یہ کام بڑی کامیابی کے ساتھ انجام دیا تھا۔ امریکہ کے زبردست دباﺅ کے باعث ایرانی نظام نے 3برس بعد امریکہ کے ساتھ خفیہ سلسلہ جنبانی کی۔ ایرانی نظام نے باراک اوباما انتظامیہ سے خفیہ مذاکرات کی درخواست کی تھی۔ یہ کام ایسے وقت میں انجام پایا تھا جب ایران میں سبز انقلاب نے ایرانی نظام کی چولیں ہلا دی تھیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان خفیہ مذاکرات کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔ رفتہ رفتہ ایران شام میں انقلاب کے بعد مزید جھکا۔ شام خطے میں ایران کا اسٹراٹیجک حلیف ہے۔ امریکی انتظامیہ نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ ایران کے ساتھ خفیہ معاہدے کی اس شرط پر منظوری دی تھی کہ ایران عسکری اہداف و مقاصد کیلئے اپنا ایٹمی منصوبہ معطل کردیگا۔ ایسا کرنے پر امریکہ اور اسکے اتحادی ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھالیں گے اور شامی نظام کا دھڑن تختہ کرنے سے باز رہیں گے۔ ایرانیوں نے گفت و شنید کے درمیان یہ پتہ لگالیا کہ امریکی صدر اوباما مذکورہ معاہدے کے بعد انہیں مزید کچھ دینے کو تیار ہیں۔ ایرانی بہت اچھے سودے باز ہیں۔ انہوں نے یہ منظر نامہ دیکھ کر اپنے مطالبات کی فہرست بڑھا دی۔ امریکہ نے ایران کے حوالے سے بڑی بھاری غلطیاں کیں تاہم برسہا برس تک امریکہ کے سفارتکاروں نے گفت و شنید کرکے انتہائی اہم معاہدہ کرلیاجس کے بموجب خامنہ ای کا نظام متعدد مطالبات سے دستبردار ہوگیا۔ امریکہ نے یہ کام ایک گولی استعمال کئے بغیر انجام دیدیا۔ ایرانی نظام کو محض سفارتکاری کے ذریعے اقوام متحدہ کے اصولوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔ اسے عراق، شام، لبنان، غزہ اور یمن میں مداخلت سے روکا جاسکتا ہے لیکن سفارتی عمل کے نتائج فوری طور پر برآمد نہیں ہوتے۔ وقت لیتے ہیں۔
خدشہ اس بات کا ہے کہ شمالی کوریا کے حکمراں تاریخی ایٹمی معاہدے کی امریکی خواہش کو دیکھتے ہوئے امریکہ پر دباﺅ نہ بڑھا دیں۔ یہ بات بعید از امکان نہیں کہ شمالی کوریا کا رہنما اپنے ایرانی حلیف کو بچانے کیلئے امریکیو ںکو راضی نہ کرلے۔ ہوسکتا ہے کہ میرے خدشات بے معنی ہوں تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انتہا پسند ایرانی نظام اور انتہا پسند شمالی کوریا کے نظام کے درمیان تعلقات کافی تگڑے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: