Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”پہلے تو ترک تعلق کی وبا پھیلے گی::پھر محبت کا بھی انکار کیا جائے گا“

 زینت ملک ۔جدہ
اردو زبان اپنی وسعت میں ہمہ گیر حیثیت کی حامل ہے۔دنیا کا ہر علم اس زبان میں موجود ہے ۔ علم سیاسیات، اخلاقیات، معاشیات، دینیات، ریاضیات، سائنس وٹیکنالوجی ،ادب و ثقافت وغیرہ۔ ادب و فن کی طرف عوام کا رجحان بہترین ریاست کی پہچان ہے۔
ممتاز احمد شیخ ادب و صحافت کے کارزار میں مصروف عمل ہیں جس طرح ایک اچھے عمل کا اجر تین نسل کو ملتا ہے کہ جس نے اچھا عمل کیا، وسرے انکے والدین کہ انہوں نے ایسی اچھی تربیت کی، تیسرے وہ نسل نو کہ جس نے اچھا سلوک پایا ہو۔
حقیقی زندگی میں بھی مسرت و غم کے جذبات ملے جلے ملتے ہیں ۔شاعری دراصل ایک سماجی طاقت کی نشاندہی کرتی ہے۔بہت سے ناقدین نے شاعری کی ماہیت کو گہری نظر سے دیکھا ۔ شعوری کاوش سے تخلیق شدہ فن کے منصب اور معنی پر بہترین گفتگو کی۔
دیوان غالب،بال جبریل ،مثنوی گلزار نسیم، مثنوی سحرالبیان اور مسدس حالی وغیرہ کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ہے جنہیں آسمان ادب کے درخشاںستاروں کی طرح چمکتا ہوا دیکھا جاتا رہا ہے۔گردش دوراں نے انہیں مختلف کتابوں کے اوراق میں سمیٹا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ آنے والوں کے لئے انہیں ایک جگہ پر محکم کیا جائے اور اس کے لئے ایک پوری ٹیم کی ضرورت تھی کہ جو گہرااور تیز رفتار مطالعہ کرے اور انہیں ایک جگہ پر جمع کر کے آئندہ نسل کے لئے اپنے درخشاں ادب کو محفوظ بنائے۔ 
”لوح“ ایسا سہ ماہی رسالہ ہے جو اس کوشش میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے جس کی تعریف دنیا بھر سے اردو سے وابستہ لوگ کر رہے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے ہندوستان سے اپنے خط میں شاعر وشنیٹ کمار کے لفظوں میں اپنے دلی جذبات کا اظہار یوںکیا کہ:
” یہاں تک آتے آتے سارے الفاظ گم ہوجاتے ہیں۔امید کی خستہ حال عمارتوں کے درمیان اچانک روشنی کی ایک کرن نظر آئی۔ پہلے درویش ہوا کرتا تھا جو گنگنایا کرتا تھا:
” کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا“
ایسا وقت بھی آیا کہ اچھے اچھے رسائل تاریخ کا حصہ بن کر اوجھل ہو گئے لیکن اب یہ چراغ روشن ہوا ہے کہ جس میں رشید امجد سے اقبال خورشید تک، فاروقی صاحب سے لے کر ہر دبستان فکر کے ادیب یہاں موجود ہیں ۔ اس رسالے نے ”نگار اور نقوش ” جیسے یادگار رسائل کی یاد تازہ کر دی۔ 
زندہ ضمیر کسی بھی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ہر کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ ہر انسان اپنی کہانی کا خود پیشکار ہوتا ہے ۔ بدلتے موسم زندگی کا استعارہ ہوتے ہیں ۔زندگی کی خوبصورتی کو محسوس بھی کرنا چاہئے اور اپنی نسل نو کی تر بیت بھی ان ہی خطوط پر کرنی چاہئے کہ وہ بھی اپنے اسلاف پر نہ صرف فخر کریں بلکہ اپنے درخشاں ماضی کو انہی چمکتے ستاروں کی مانند آئندہ بھی برقرار رکھیں۔ 
ممتاز احمد شیخ کی اہلیہ زاہدہ ممتاز کو بے حد خوشی ہے کہ ان کے شوہر نامدار ایک احسن کام انجام دے رہے ہیں ۔ممتاز شیخ کے اشعار
 جو ان کے بھی پسندیدہ ہیں، پیش ہیں: 
عشق تو کام ہی ایسا ہے کہ اس بستی میں
 آخری جان کے ہر بار کیا جاتا ہے 
٭٭٭
پہلے تو ترک تعلق کی وبا پھیلے گی 
پھر محبت کا بھی انکار کیا جائے گا 
یہ محبت کا سفر ہے اسے آساں نہ سمجھ
 ایک صحرا ہے جسے پار کیا جائے گا 
 

شیئر: