Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”حماس“عسکری مہم کے سلسلے میں ایران کے نقش قدم پر

ہدیٰ الحسینی ۔ الشرق الاوسط
امریکہ اور فرانس کے صدور کی ملاقات ہو یا جنوبی و شمالی کوریا کے رہنماﺅں کی تاریخی کانفرنس ہو،ان میں سے کسی بھی خبر نے اتنی زیادہ اہمیت حاصل نہیں کی جتنا کہ ملائیشیا میں حماس کے ایک سرگرم کارکن کے قتل کے واقعہ نے دنیا بھر کے میڈیا کو گرما کرتوجہ حاصل کی۔ اس واقعہ نے حماس کے حوالے سے بہت ساری بند کھڑکیاں کھول دیں۔
ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کی یونیورسٹی کے لیکچرارڈاکٹر فادی البطش کو10اپریل ہفتے کی صبح مسجد جاتے ہوئے موٹر سائیکل سواروں نے ہلاک کردیا۔ ابھی چند گھنٹے نہ گزرے تھے کہ پوری دنیا میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ البطش کوئی معمولی سائنسداں نہیں تھے بلکہ وہ حماس کے عسکری گروہ کیلئے کام کررہے تھے۔ انہوں نے حماس کو مسلح کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے ترقی یافتہ اسلحہ کی تیاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ البطش کے قتل نے ملائیشیا کو متعلقہ ممالک کے راڈار پر رکھ دیا۔ 
کئی برس سے ملائیشیا حماس کی سرگرمیوں کا پسندیدہ مرکز بنا ہوا تھا۔ یہ سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے فلسطینیوں کے کافی قریب مانا جاتا ہے۔ اس تناظر میں وہاں فلسطینیوں کا قیام اور اعلیٰ تعلیم کیلئے وہاں فلسطینی نوجوانوں کا جانا تعجب انگیز نہیں۔حماس نے ملائیشیا اعلیٰ تعلیم کیلئے آنیوالے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا۔ خاص طور پر کیمسٹری اور انجینیئرنگ کے فلسطینی طلبہ کو میزائلوں ، دھماکہ خیز مواد کی تیاری اور موثر اسلحہ کے بنیادی ڈھانچوں کی تیاری موثر عملے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔
ملائیشیا کی جامعات فلسطینی نوجوانوں کو شکار کرنے کیلئے حماس کا پسندیدہ ترین مرکز بن گئیں۔ ایران مختلف ممالک کی دیواروں میں نقب لگانے کیلئے ثقافتی وفود کو استعمال کرنے کا عادی ہے۔ حماس نے سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو عنوان بناکر طلبہ کو اپنانے کا چکر چلانا شروع کردیا۔ ایک غیر ملکی ماہرکا جو حماس کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے ،کہنا ہے کہ حماس نے ملائیشیا میں نوجوانوں کو اپنے عسکری ونگ کیلئے جس طرح اپنایا وہ ایسا ہی کام تیونس اور ترکی میں بھی کرچکی ہے۔ حماس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ وہ ملائیشیا میں نوجوانوںکو اپنے دام میں پھنساتی رہے ۔ اس نے ملائیشیا کو ”گرم آغوش“کی حیثیت میں بھی دیکھنا شروع کردیا۔ حماس کو ایسا لگا کہ وہ ملائیشیا میں خود سے متاثر نوجوانوں کی تربیت کے مراکز بھی قائم کرسکتی ہے۔ خارجی ابلاغی رپورٹوں کے مطابق حماس نے ملائیشیا کی متعدد جماعتوں کو عسکری تربیت کا لالچ دیا۔ ڈرون سے متعلق اسکیمیں گوش گزار کیں۔ دسیوں نوجوانوں کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا۔ ملائیشیا کی انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی کے دسیوں نوجوانوں کو اپنے دام میں پھنسایا۔
ڈاکٹر البطش کے بارے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ حماس کیلئے ڈرون پروجیکٹ پر کام کرنے والے قافلہ سالاروں میں سرفہرست تھے۔ ان کا مقصد اسرائیل کے اندر مختلف ٹھکانوں کو نشانہ بنانا اور محفوظ دراندازی کو یقینی بنانا تھا۔ غیر ملکی ماہر کا کہنا ہے کہ ملائیشیا اس سلسلے میں کم از کم نظر اندازی والا موقف اپنائے ہوئے تھا۔
ملائیشیا کے لوگ حماس کے ساتھ اپنے تعلقات کو سیاسی اور انسانی چشمے سے دیکھتے اور دکھاتے رہے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم گزشتہ سال غزہ کے دورے پر گئے ۔ حماس ، فلسطینی وفود کوالالمپور پابندی سے بھیجتی رہی۔ یہ دورے ایک طرح سے عسکری اور امن روابط پر پردہ ڈالنے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ ملائیشیا آنیوالے حماس کے وفود کوالالمپور میں اسلحہ کی بھاری نمائشیں دیکھنے ضرور جاتے تھے۔ حماس مختلف ممالک میں نظریاتی ہمدردی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کیلئے اس قسم کی حرکتیں کرتی رہتی ہے۔ملائیشیا ایسا پہلا ملک نہیں اور نہ آخری جس نے حماس کیلئے اپنے دروازے کھولے۔ یہ رویہ ملائیشیا کو دہشتگردی کی سرپرست ریاست کی فہرست میں داخل کراسکتا ہے۔ 
اگر ہم ترکی کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو وہ بھی سیاسی ، اقتصادی مسائل میں حماس کی سرپرستی کررہا ہے۔ حماس کے بڑے عہدیداروں کو اپنے یہاں پناہ دیئے ہوئے ہے۔ ملائیشیا کی طرح ترکی بھی حماس کی سرگرمیوں سے آنکھیں موندے ہوئے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حماس کی عوامی مدد کے باوجود انقرہ کے حکام حماس کی سرگرمیوں کے نتائج نظر انداز کرنے کی قیمت چکانے کی بابت لاپروا نہیں ۔ ترکی حماس کے حوالے سے زبردست عالمی دباﺅ کئی بار جھیل چکا ہے۔ 
وہ وقت قریب آچکا ہے جب حماس کے اعلیٰ عہدیداروں سے یہ پوچھا جائے گا کہ آپ لوگوں نے میزبانی کے آداب کا پاس نہیں کیا۔ بصد افسوس ماننا پڑتا ہے کہ غزہ کے باشندے حماس کے انحراف اور ایرانی ہدایات کی پابندی کا خمیازہ بھگتیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: