منحوس معاہدہ اور دہشتگردی کے کینسر کی حکمت عملی
10مئی 2018ءجمعرات کو مملکت سے شائع ہونے والے اخبار ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ
امریکی صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں جو وعدہ کیاتھا اسے پورا کر دکھایا۔ ایران اور بڑے ممالک کے درمیان طے پانے ولا ایٹمی معاہدہ برا ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے اور خطرناک بھی ایسا ویسا نہیں غیر معمولی ہے۔ ایران کے دہشتگرد نظام کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جاسکتا۔بہرحال زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے نے متعدد مواقع فراہم کئے۔ امید یہ تھی کہ اہداف پورے ہونگے لیکن ایرانی نظام نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ اس سلسلے میں عالمی برادری کے ساتھ تعاون کا کوئی ارادہ نہیں رکھ سکتا اور وہ مزید ایٹمی طاقت بننے کیلئے خفیہ طریقے سے سرگرم عمل رہیگا۔ ایٹمی معاہدے نے ملاﺅں کے نظام کو خطرناک میزائل استعداد مضبوط بنانے کا بھی موقع فراہم کیا۔ اس معاہدے نے مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا میں امن و استحکام کو خطرات پیدا کرنے والی عسکری صلاحیت میں اضافے کی سبیل بھی پیدا کی۔ ایٹمی معاہدہ ایک وہم تھا ۔سابق امریکی صدر اوباما اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کے خواہاں تھے۔ سچ یہ ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما نے کئی بار سیاسی سادگی کا مختلف معاملا ت میں مظاہرہ کیا۔ ایٹمی معاہدہ خطے میں امن و استحکام کی بحالی میں ناکام رہا۔ ایران نے اس سے بڑھ چڑھ کر اقتصادی فوائد حاصل کئے۔ اقتصادی پابندیاں اٹھنے پر علاقے میں انارکی پھیلا دی۔
صورتحال اب بدل گئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اس حوالے سے فیصلہ کن دو ٹوک موقف اختیار کرچکے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ انہوں نے جو وعدہ کیا تھا پورا کر دکھایا۔ انہوں نے ایران کے دہشتگرد نظام پر پابندیاں بحال کردیں۔ ایرانی نظام بین الاقوامی قوانین اورروایات کی پامالی کا عادی بن چکا ہے۔ یہ پوری دنیا میں دہشتگردی برآمد کررہا ہے۔ملاﺅں کے نظام نے ایٹمی معاہدے کے نتیجے میں اٹھنے والی پابندیوں سے بے نظیر انداز میں فائدہ اٹھایا۔ جتنی دولت جمع کرسکتا تھا کی، اسی طرح دہشتگرد تنظیموں کو جتنی زیادہ مدد دے سکتا تھا دیتا رہا اور ان سے انارکی پھیلانے والی جنگو ںکا کام لیتا رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭