عدنان کامل صلاح ۔ المدینہ
ایرانی حکومت نے یو ٹیوب پر اپنے وزیر خارجہ جواد ظریف کی ایک وڈیو جاری کی ہے ۔ انہوں نے انگریزی زبان میں ایران کے ایٹمی معاہدے میں کسی بھی ترمیم یا کسی بھی اضافے کو مسترد کرنے کا موقف اختیار کیا۔ انہوں نے معاہدے میں ترامیم تجویز کرنے والے یورپی رہنماﺅں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یورپی رہنما ایران کے حساب پر مذاکرات کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ نہیں واضح ہوسکا کہ جواد ظریف کا یو ٹیوب اسرائیلی وزیراعظم کی پریس کانفرنس سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔ نتنیا ہو نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیلی محکمہ خفیہ موساد کے جاسوس ایرانی دستاویزات چوری کرچکے ہیں جن سے ثابت ہورہا ہے کہ ایرانی ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایران کا دعویٰ ہو یا اسرائیل کا، ان سب کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض تجزیہ نگارو ںنے خطے میں جنگ کی قیاس آرائی شروع کردی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنایہ ہے کہ نیابتی جنگ کا سلسلہ جاری رہیگا۔ یہ عراق میں ہو یا شام میں ہو یا لبنان یا کسی اور جگہ۔ علاوہ ازیں ایرانی اثر و نفوذ والے ممالک میں بھی ہلچل پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر عراق میں شیعہ فرقہ سے منسوب شخصیتوں کے درمیان اختلافات کے ماحول میں انتخابات ہورہے ہیں۔ الحشد الشابی کا ایک حصہ ایرانی پاسداران انقلاب سے ہدایات لے رہا ہے جبکہ عوامی پاسداران عراق میں علی السیستانی شیعہ فرقے کے مرجع اعلیٰ کی تابعداری میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ مقتدیٰ الصدر سے جڑے ہوئے ہیں۔ اہل بغداد منتظر ہیں کہ نتیجہ کسی ایک فریق کے حق میں برآمد ہوتا ہے یا باہم دیگر تعاون کرنے والے متعد د فریقوں کو غلبہ ملتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایرانیوں اور پاسداران انقلاب کا دباﺅ ،جبر اور وفاداریاں خریدنے کا سلسلہ کہاں تک موثر ہوسکتا ہے ۔ جہاںتک بیروت کا تعلق ہے تو لبنانی حزب اللہ جو ایرانی پاسداران انقلاب کا ایک حصہ ہے ،پورے لبنان کو ایرانی کالونی میں تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ لبنان کی سرحدوں پر شام میں ایران کی زیر سرپرستی معرکے چل رہے ہیںاور دمشق کو ایرانی پاسداران انقلاب کے زیر کنٹرول دارالحکومت بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
ایرانی حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ روس نے شام میں اپنی ا فواج بھیجنے کا فیصلہ کرلیا جس سے ایک طرح سے وہاں ایرانی فوج، ملیشیا اور وظیفہ خواروںکو روسی سائبان حاصل ہوجائیگا۔ روس کی مداخلت نے مقامی اور علاقائی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی کو پس پردہ بھیج دیا۔ امریکہ اور یورپ کو محاذ آرائی کی طرف دھکیل دیا ۔
اس مختصر سی گفتگو کا نتیجہ میرے ذہن کے اعتبار سے یہ نکلتا ہے کہ اگر ہمارے علاقے میں کوئی جنگ ہوگی تو وہ علاقائی اہداف تک محدود نہیں رہیگی بلکہ بین الاقوامی اثرات کی حامل ہوگی۔ چین بھی یہاں سے دور نہیں البتہ اس جنگ کا ایک فائدہ یہ ہوگاکہ ایران عر ب ممالک سے خارج ہوجائیگا۔ پتہ نہیں اس وقت جو کچھ ہم دیکھ او رسن رہے ہیں کیا وہ سچ مچ طبل جنگ کی صدائیں ہیں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭