Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حزب اللہ اور مزاحمت کا بہانہ

18مئی 2018جمعہ کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی اخبارعکاظ کا اداریہ نذر قارئین ہے۔
    سعودی عرب نے امریکہ اور اتحادی ممالک کی شراکت سے پرسوں لبنانی حزب اللہ کے اعلیٰ عہدیداروں پر نئی پابندیاں عائد کردیں۔ان میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ ، ان کے نائب نعیم قاسم اور ایران کی حمایت یافتہ دہشتگرد تنظیم کی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور ادارے بھی شامل ہیں۔ پابندیوں کا مقصددہشتگردی کی فنڈنگ کی جڑ پر وار کرنا ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ ایران کی جانب سے نصراللہ کی ملیشیاؤں کی فنڈنگ کے سارے راستے بند کردیئے جائیں۔حزب اللہ اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کو اپنی بقا کا وسیلہ بنائے ہوئے ہے۔
    حزب اللہ نے 1982ء میں قیام کے بعد سے لیکر اسرائیل کی مزاحمت کا نعرہ لگا رکھا ہے۔ یہ نعرہ رائے عامہ کی آنکھ میں دھول جھونکنے کیلئے ہے۔ حز ب اللہ ایران میں ولایت فقیہ نظام کے اغراض و مقاصد کے حصول کیلئے قائم کی گئی تھی۔ اس کا بنیادی ہدف فرقہ واریت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا اور اس پر پردہ ڈالنے کیلئے اسرائیل کی مزاحمت کا نعرہ تھا۔ حزب اللہ کی شبانہ روز سرگرمیاں لبنان کے اندر دہشتگردی اور اشتعال انگیزی رہا۔ رفتہ رفتہ اس کی سرگرمیوں کا دائرہ لبنان سے منتقل ہوکر اکثر عرب ممالک میں دہشتگردانہ سرگرمیوں تک پھیل گیا۔
     حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا نعرہ اُس وقت بلند کیا تھا جب اسرائیل 8ویں عشرے کے شروع میں لبنان کے وسیع و عریض علاقوں پر ناجائز قبضہ جمائے ہوئے تھا۔ حزب اللہ نے اسرائیل کی مزاحمت کے بجائے لبنان کی قومی مزاحمت کی لیڈر شپ کو اپنا ہدف بنایا۔ مقصد فرقہ وارانہ اسکیم کو عملی جامہ پہنانا تھا تاکہ اس کا فائدہ ایران کو پہنچے جبکہ لبنان کو اس نام نہادمزاحمت کے باعث بھاری نقصان پہنچا۔ اب نصراللہ کی ملیشیا کی دہشتگردی کے خاتمے اور اس فتنے کی سرکوبی کے سوا کوئی اور حل نہیں رہ گیا ہے۔
مزید پڑھیں:- - - -مسجد الحرام میں سہولتیں

شیئر: