درس و تدریس سے منسلک ادیبہ و شاعرہ،ڈاکٹر نگارعظیم
زینت شکیل۔جدہ
رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں کہ ناسخ تین چیزوں کے واسطے مشہور ہیں،ایک انکی قادرالکلامی جو انکی غزلوں سے معلوم ہوتی ہے، دوسرے وہ طرز جدید جو انہوں نے ایجاد کیا ،تیسرے ایک بڑی جماعت مشہور شاگردوں کی جن کو وہ اپنے بعد چھوڑگئے ۔ڈاکٹر نگار عظیم انہی کی راہ پر چلتی معلوم ہوتی ہیں۔ ادیبہ اور شاعرہ کی حیثیت سے بھی اور اپنے درس و تدریس کے شعبے سے وابستگی کی وجہ سے بھی۔ اپنے والد اور شریک حیات دونوں کی کتابیں اپنی کتابوں کے ساتھ منظر عام پر لانے کی خواہش انکی روز و شب کی مصروفیت کا پتہ دیتی ہے اور اب انکی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ لگاتے ہوے ڈاکٹرقمر جیلانی نے انہیں ” بنات نسا“ کی صدارت سونپ دی ۔اس میں کام بھی زیادہ تھا اور ذمہ داری بھی لیکن ہمت کی کہ جب اس قابل سمجھا گیا ہے تو اپنی کوششوں سے اوررب کریم کی مدد سے انکے اس فیصلے کو درست ثابت کرنا چاہئے۔
وقت کم تھا ، کام زیادہ تھا۔ اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی۔ ساتھیوں کا ساتھ چاہئے تھا۔ سب اپنی اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لائے ۔جو خواتین پہلے سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ، لکھ رہی ہیں ، انکی تخلیقات اشاعت پذیر ہیں، انہیں تو ادبی مجالس اور مشاعروں میں شرکت کی اکثر جگہوں سے دعوت ملتی ہے لیکن وہ خواتین جو جاب نہیں کرتیں اور وہ کہیں زیادہ جانی بھی نہیں جاتیں،گھر پر رہ کر اپنی تخلیقات کو جلا بخشتی ہیں ، انکی تحاریر کسی بڑے مصنف سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہیں۔ ایسے بہترین ادبی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مسودے کی تخلیق کارکوان کے شاہکار کے ساتھ دوسری خواتین کے سامنے لانا کوئی آسان کام نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے نتیجے میں ڈاکٹر نگار عظیم اور انکی ٹیم کو بے شمار اسٹوڈنٹس ملیں گی جو آگے چل کر اپنی استاذہ کا نام روشن کریں گی۔
پہلے زمانے میں خواتین کے بہت گنے چنے نام تھے جو لکھنے کا شغف رکھتی تھیں ۔ہرگھر کا حسن ،سلیقہ اور ترتیب اس گھر کی مالکہ کی جدت و ندرت کی عکاسی کرتی ہے۔ادب و ثقافت ،رہن سہن ،طور طریقے ان شعبوں میں بھی ان کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
شاعری دراصل اپنے ماحول کی ترقی و تمدن کو لفظی اشکال میں ڈھال دیتی ہے۔ سخت ماحول میں ڈھارس بندھاتی ہے اور زندگی کے حالات جیسے بھی ہوں ، کائنات کی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔جو اپنے ارد گرد سے رابطہ رکھتا ہے، کائنات پر غور کرتا ہے، وہ کبھی مایوس
نہیں ہوتا۔ہر چیز سے ہمت اور سبق سیکھا جا سکتا ہے۔
زندگی کی تلخی میں بھی ایک پوشیدہ انبساط ہوتا ہے اور یہ سوچ تقویت دیتی ہے کہ ہر انسان ہر وقت چھوٹے بڑے امتحان سے گزرتا رہتا ہے لیکن انہیں گزرتے لمحوں میں قدرت کی طرف متوجہ ہو جائیں تو ہر چیز میں ردھم نظر آنے لگتا ہے۔بارش کی ہر بوند ایک ہمت اور حوصلے کی داستان معلوم ہوتی ہے کہ مستقل مزاجی سے ایک کے بعد ایک قطرہ ایک دوسرے سے منسلک ہو کر آسمان سے زمین تک کا فاصلہ طے کرتا معلوم ہوتا ہے ۔اسکی جلترنگ ،خوشگوار ہواﺅں اور بادلوں کی گھن گرج ہر جگہ پہنچتی ہے ۔تمام جہانوں میں ایک سے سلوک کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ واقعی ہر ایک چیز میں سبق ہے کہ اس سے انسان سبق سیکھے اور ترقی کی سیڑھی طے کرتا جائے۔
”بنات نسا“ خواتین کو ایسا پلیٹ فارم میسر آیا ہے کہ اسکی شہرت دن دگنی اور رات چوگنی کے حساب سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 31دسمبر سال کا چونکہ آخری دن ہوتا ہے تو پورے سال میں جو اہم واقعات قابل ذکر ہوتے ہیں، نئے سال کی پہلی تاریخ کے اخبار میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن سال کی آخری تاریخ کو ہونے والے بنات الانسا کا پروگرام رات گئے اختتام پذیر ہوااس کے باوجود اسکی رپورٹ پوری تفصیل کے ساتھ صبح سویرے لوگوں کے ہاتھوں میں اخبار کی صورت موجود تھی ۔کثیر تعدادمیں لوگوں کا مختلف شہروں سے سفر کر کے وہاں پہنچنا اورپروگرام میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا درحقیقت اس کی اہمیت بتانے کے لئے کافی ہے۔
ڈاکٹر نگار نے ڈبل ایم اے کیا، فائن آرٹس اور اردو میں۔ پروفیسر ہیں اور شاعری کے ساتھ نثر کی طرف بھی متوجہ رہتی ہیں۔ ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور کئی ایک عید کے بعد نقاب کشائی کے لئے تیار ہوجائیں گی۔
ڈاکٹر نگار عظیم کا کہنا ہے کہ وقت کو ضائع نہیںکرنا چاہئے۔ کسی نہ کسی صحت مند مشغلے میں مصروف رہنا چاہئے ۔ ہم اپنی قوم اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار اسی وقت ادا کر سکتے ہیں جب تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دیں ، تعلیم دراصل ترقی کی کنجی ہے۔