ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کی ”خوشبو کے جھونکے“ کی رونمائی
جاوید اقبال ۔ ریاض
غم دوراں بھی بڑا ستمگر ہے۔ ذہن پر اپنا دامن یوں دراز کرتا ہے کہ اسے سب کچھ فراموش کرادیتا ہے۔ صبح و شام یہی تگ و دو رہتی ہے کہ اپنے اور اپنوں کے لئے راحت کے اسباب میسر کرتے رہیںپھر جب قدم منزل آشنا ہوجاتے ہیں تو توجہ دوسری طرف بھی بھٹکتی ہے۔ ذوق سلیم اظہار کے لئے مچلتا ہے۔ الفاظ دریا بنے رواں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے مختلف مکتبہ خانوں میں کتابوں کے ہجوم میں ایک ساکت زندگی بسر کی اور جب غم دوراں سے فرصت نصیب ہوئی تو خیالات کے ریلے نے یلغار کردی۔ برسوں سے رکی طبع رواں ہوئی اور ”خوشبو کے جھونکے “وجود میں آگئی ۔ ان کی ”ناگہانی“ تصنیف میں تذکرے بھی ہیں، مضامین بھی اور ادبی شخصیات پر مقالے بھی۔ پہلی تصنیف تھی اس لئے تقریب رونمائی کا انعقاد بھی پرُشوکت تھا۔
سفارتخانہ پاکستان کے چانسری ہال میں منعقد ہونے والے اجتماع کے مہمان خصوصی ڈپٹی ہیڈ آف مشن سردار محمد خان خٹک تھے جو سفیر پاکستان خان ہشام بن صدیق کی نیابت کررہے تھے۔ نظامت کے فرائض ریاض کے معروف شاعر وقار نسیم وامق نے انجام دیئے۔ ڈاکٹر محمود باجوہ کی تلاوت قرآن کریم سے تقریب کا آغاز ہوا جس کے بعد معروف نعت خواں محمد اصغر چشتی نے ہدیہ نعت طیبہ پیش کیا۔
ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کو ایک انتہائی اہم اضافہ اردو ادب میں قرار دیا اور واضح کیا کہ مصنف نے بڑی نفاست سے موضوعات کا انتخاب کیا تھا۔ خاندانی موضوعات کے علاوہ مختلف ادبی شخصیات پر تحقیقی مقالوں کا کتاب میں موجود ہونا مصنف کی وسیع فکر پردال تھا۔
محمد خالد رانا نے اپنے ہلکے پھلکے انداز میں ”خوشبو کے جھونکے“ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگر مصنف اتنی اچھی تحریر دے سکتے ہیں تو اگر وہ عہد شباب میں کتاب لکھتے تو تحریر کی کیا چاشنی ہوتی۔ ڈاکٹر ندیم احمد بھٹی نے اپنے پرمغز مقالے میں مطالعے کو انسان کی بہترین عادت قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ایک اچھا قاری زندگی میں تقریبا ًایک ہزار کتب کا مطالعہ کرلیتا ہے جو اس کی ذہنی نشو ونما میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کی ماں کی اپنی اولاد کی جسمانی نشو ونما میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ بچوں میں مطالعے کی عادت پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ایک عام شہری سال میں دس کتب کا مطالعہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر بھٹی نے حاضرین کو نصیحت کی کہ وہ اپنے احباب کوکتابوں کے تحائف دیا کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اجتماعی مطالعہ بھی معاشرے کی ذہنی نشو ونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کتاب کو مختلف حصوں میں تقسیم کرلیا جائے اور پھر قارئین اپنا اپنا حصہ پڑھ کر اپنے خواندہ کا خلاصہ اپنے ساتھیوں کو سنائیں۔ اس طرح وقت کی بچت ہوگی۔ انہوںنے ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کی تصنیف کی ستائش کی اور کہا کہ مصنف نے ماہرانہ انداز میں اپنے خیالات و احساسات کو تحریر کی شکل میں ڈھالا تھا۔
حافظ عبدالوحید فتح محمد نے ”خوشبو کے جھونکے“پر تفصیلی مقالہ پڑھا اور کہا کہ مصنف نے اپنے انداز بیان میں اپنی شخصیت کو واضح کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی تحریک آزادی کو ذہن میں رکھتے ہوئے دلکش مضامین لکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم اور علامہ اقبال سے مصنف کی محبت ہر لفظ سے ہویدا ہے۔پروین شاکر ، بانو قدسیہ ، احمد ندیم قاسمی ، ڈاکٹر عمرانہ مشتاق اور اشفاق احمد پر انہوں نے بہت خوب لکھا ہے۔
محمد امین تاجر نے ”خوشبو کے جھونکے“ کو ایک جامع اور دلکش تصنیف قرار دیا اور کہا کہ مملکت میں قیام نے ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کی فکر و نظر کو دلکش سانچے میں ڈھال دیا تھا۔ ان کی کتاب میں کوئی ابہام نظر نہیں آتا۔ انہوں نے بڑے لطیف انداز میں یورپی ثقافتی اقدار پر طنز کے نشتر چلائے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے موضوع پر ان کی تحریر کا بھی ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔
مہمان خصوصی سردار محمد خان خٹک نے اپنے خطاب میں اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ بُک کلچر اب معدوم ہوتا جارہا ہے اور کتاب کا مطالعہ کرنے والے اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لکھاری کا وجود اب خطرے میں پڑ چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جس طرح عدم وجود کے خطرے سے دوچار اشیاءاور مقامات کی حفاظت کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ،اسی طرح آج کے مصنف کا بھی خصوصی خیال رکھا جانا چاہئے۔ سردار محمد خان خٹک نے اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے اپنی زندگی کے تجربات اور اپنے خیالات کو تحریر کی شکل دے دی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ادیب اپنے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اس لئے اس کے تجربات کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ انہوں نے مصنف کو ان کی پہلی کاوش پر مبارکباد دی۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے ڈپٹی ہیڈ آف مشن سردار محمد خان خٹک کا تقریب میں آمد پر شکریہ ادا کیا اور اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ سفارتخانہ ایسی ادبی اور ثقافتی تقریبات کی سرپرستی کرتا ہے۔ انہوں نے تقریب کے اسپانسر شہزاد عالم صدیقی کا بھی شکریہ ادا کیا اور توقع کی کہ وہ اپنے ہم وطنوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے اپنی مساعی جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر ناظم وقار نسیم وامق نے حاضرین پر واضح کیا کہ شہزاد عالم صدیقی نے مملکت ، پاکستان اور کینیڈامیں کمپیوٹر کالج قائم کر رکھے ہیں اور 2 ہزار بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کررہے ہیں۔
تقریب کے اختتام پر اسپانسر کی طرف سے مصنف کو جبکہ مہمان خصوصی اور اعزازی مہمان کو حلقہ فکر و فن کی طرف سے اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔