Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوم تکبیر کے تحت پی آر سی کا سمپوزیم

جدہ .....  یوم تکبیر کی 20ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان مجلس محصورین پاکستان جدہ چیپٹرکے تحت ایک سمپوزیم "ایٹمی ٹیکنالوجی۔ہماری ضرورت اور ذمہ داری کے عنوان سے منعقد ہوا جس کی صدارت معروف دانشور اور سابق سعودی سفارتکار ڈاکٹر علی الغامدی نے کی۔ انھوں نے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ایٹمی طاقت بننا اور نیوکلیرکلب کا ممبر بننا صرف پاکستان کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے باعث فخر و تکریم ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے علاوہ تمام سرکردہ حکمرانوں اور سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔انھوں  نے بھٹو کے تاریخی جملے گھاس کھا کر بھی ایٹمی طاقت حاصل کریں گے۔ جو ایک قوم کا عزم مصمم  بن گیا۔انھوں نے البتہ اس پرافسوس کا اظہارکیا پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی سے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتو لیا لیکن پچھلے 20سال میں عوامی مفاد کے پرامن استعمال  مثلا بجلی، زراعت، پانی اور طب میںکوئی کام نہیں ہوا۔ آج کی قومیں ترقی کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا معزز قومیں اپنے شہریوں کو نظرانداز نہیں کرتیں۔ پاکستان کا فرض ہے ڈھائی لاکھ محب وطن پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری کرے اور بنگلہ دیش کے کیمپوں سے جلد منتقل کرکے پاکستان میں آباد کرے۔ انھوں نے کہا کہ رابطہ ٹرسٹ نے اس سلسلے میں فنڈ اکھٹا کیا تھا جو اس مد میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور پی آرسی کی تجاویزبھی معاون ہوسکتی ہے۔انھوں نے پاکستان میں فلاحی ادارے مسلم ویلفیئر اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن ،نوائے وقت فنڈ برائے محصورین اور امریکی ادارے اور سعودی ادارے اسلامی ڈیولپمنٹ بنک، اسلامی عالمی تنظیم (آئی آئی ار او) کی تعریف کی جو محصورین کی کیمپوں میں امداد کرتے ہیں۔ البتہ یہ تمام ملکر بھی 10  فیصد آبادی کو بھی پورا نہیں کرسکتے ہیں۔ مزید فلا حی تنظیموں کو آگے آنا چاہییے تاکہ ان کی کسمپری میں کمی ہو سکے۔ سیمپوزیم کی ابتدا ڈپٹی کنوینر حامد الاسلام خان نے کی اور پی آر سی کے مشن محصورین کی واپسی اور الحاق کشمیر کے بغیر نا مکمل ہے، کااعادہ کیا۔  انھوں نے کہا ایٹمی دھماکہ وقت کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد اس ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ سے ہماری صنعتیں ڈوب رہی ہیں۔ بجلی ،پانی وغیرہ جیسے وسائل کی کمی کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا تھا جوترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا باعث ہے۔میمن ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری طیب موسانی نے پی آر سی کو سمپوزیم کے انعقاد پر مبارکباد دی۔ پاک میڈیا گروپ کے جنرل سیکریٹری چوہدری  ریاض گھمن نے کہاکہ ایٹمی دھماکا کی کامیابی کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر کے سر ہے۔ البتہ بھٹو، نواز شریف اور دوسرے سرکردہ حکمرانوں نے اس کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ البتہ افسوس کا مقام ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی ہم نے وہ عزت و تکریم نہیں کی جو ان کا حق تھا۔ جبکہ ہندوستان نے ایٹمی سائنسدان کو ملک کا صدر تک بنا دیا۔ سماجی کارکن محمد اکرم آغا نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے عوامی استعمال پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔ معروف سماجی رہنما شمس الدین الطاف نے کہا کہ اگر 1998ء میں دھماکہ نہ کرتے تو ہندوستان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔کنوینر سید احسان الحق نے آخر میں ڈاکٹر غامدی اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا 28مئی 1998کو پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرتے تو پاکستان بھی بنگلہ دیش یا نیپال کی طرح ہندوستان کا دست نگر ملک بن کر رہتا۔ لہذا یہ ملک کی بقا ء کیلئے ناگزیر تھا۔ انہوں نے مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کیں جو منظور ہوئیں۔۱۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں نیو کلیئر ریسرچ یونیورسٹی قائم کی جائیگی جو ہنگامی بنیاد پر ملک کو بجلی ، پانی ، زراعت ، طب اور دوسرے اہم شعبوں میں وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ ۲۔ کشمیرمیں ہندوستانی مظالم کے خاتمے کے لئے اور رائے شماری کے انعقاد کے لئے حکومت اعلی سطحی کمیشن قائم کرے جو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں پر ہندوستانی مظالم کواجاگر کرے اور حق خود اختیاری کا انتظام کرے۔ ۳۔ محصورین کو فوری پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا جائے اور ان کی منتقلی و آباد کاری کا فوری انتظام کیا جائے جب تک ان کی منتقلی نہ ہوجائے ڈھاکا میں پاکستان ہائی کمیشن ان کی خبرگیری اور ضروریات زندگی کی فراہمی اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ تقریب کا  آغاز حافظ محمد علی الغامدی کی تلاوت قرآن سے ہوا۔ نظامت کے فرائض مسرت خلیل نے انجام دیئے۔
 

شیئر: