مجھ میں پذیرائی کی تاب نہیں
شہزاد اعظم...گزشتہ سے پیوستہ(4)
وہ شاعرہ نہیں تھی مگرجانتی تھی کہ ”وزن“کیا ہوتا ہے۔ وہ اکثر ایسے اشعار سنایا کرتی جنہیں سن کر ذہن و دل پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی۔میں کہتا کہ آپ تو شاعر ہ نہیں ، پھر بھی شعر و شاعری سے اس حد تک شغف، بات سمجھ میں نہیں آتی، وہ جواب دیتی کہ کیا ”شاعر“ کی ”غزل“ کے لئے بھی شاعرہ ہونا ضروری ہے ؟وہ مجھے جو بھی شعر سناتی وہ رومان سے معمور ہوتا تھامثلاً ایک روز کہنے لگی، شعر سماعت کیجئے۔ میں نے کہا ارشاد.....وہ گویا ہوئی:
ارمان بو دیئے ہیں، میں نے قدم قدم پر
چاہت سے تیری ہوگی سر سبز یہ کیاری
میں کھیل زندگی کا کھیلوں گی شرط یہ ہے
جیتوں تو تم ہمارے، ہاروں تو میں تمہاری
میں نے کہا کہ شعر میں تبدیلی کی مگر بے وزن نہیں ہونے دیا۔ اس نے جواب دیا کہ ”میں وزن کے معاملے میں بہت حساس ہوں، ایک تولہ بھی زیادہ محسوس ہو تو میں ایک وقت کا کھانا ترک کر دیتی ہوں“، ایسا ذو معنی جواب دے کر وہ خود ہی مسکرا دی۔ذرا توقف کے بعد وہ گویا ہوئی:
”اے مرے شاعر!تم نے کبھی غور کیا کہ عورت کیا ہے؟میں نے کہا عورت انسان ہے، اس نے کہا وہ تو ہے مگر کبھی آپ نے سوچا کہ عورت قدرت کی طرف سے مرد کو عطا فرمایاجانے والا تحفہ ہے۔ یہ تصویرِ کائنات کا رنگ ہی نہیں بلکہ بذاتِ خود ایک کائنات ہے۔عورت اک ایسی ہستی ہے جس میں قدرت نے فطرت کا تمام حُسن سمو دیا ہے۔ایک شاعر نے اس حقیقت کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے:
”رنگ، خوشبو، صبا، چاند ، تارے، کرن، پھول ، شبنم، شفق، آبِ جُو، چاندنی
تیری دلکش جوانی کی تکمیل میں، حُسنِ فطرت کی ہر چیز کام آگئی“
اس شعر نے مجھے کتنا متاثر کیا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج ربع صدی ہونے کو ہے، مگر یہ شعر آج بھی میرے احساسات کی دنیا میں زباں زدِ عام ہے ۔
اُس روز میں اخبار کے دفتر میں کام سے فارغ ہوا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے غزل کی آواز آئی، علیک سلیک کے بعد گویا ہوئی کہ:
” آج آپ کی دعوت ہے،غزل نے اپنے شاعر کے لئے خصوصی پکوان تیار کئے ہیں، جتنا جلد ہو سکے دفتر سے لوٹ آئیے،آج میرا بننے سنورنے کو دل چاہ رہا ہے، آپ کو عطا ہونے والا تحفہ”غزل“، آپ کے ہاتھوں سے تحفہ وصول کرنے کی خواہش مندہے ،ممکن ہو تومیرے لئے گلاب اور موتیے کا زیور لے آئیے۔“
میں پھولوں کا زیور لے کر گھر پہنچا، دروازے پر دستک دی، دروازہ کھلا، ہوا کے تیز جھونکے کی ہمسفر اُس کی خوشبو نے میری پذیرائی کی۔ حنائی ہتھیلی نیم وا دروازے سے سوالیہ انداز میں نمودار ہو ئی، میں نے ”جواب“ کے طور پرخوشبو والا پان اس ہتھیلی کو سونپ دیا۔ عنابی پشواس اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس ”غزل“ شبِ سیاہ کے تاروں بھرے آسمان کی مانند جھلملاتے اور ہوا سے ”لہلہاتے“ آنچل سے اس کا چہرہ ماہتاب کی طرح جھانک رہا تھا۔ چوتھی منزل پر موجود فلیٹ کے لاﺅنج میںبالکنی کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔مغرب سے آنے والی خنک ہواچھت سے لٹکے ہوئے قمقمے کو سرسرا رہی تھی اور اس سے دھیمی دھیمی آواز نمودار ہو رہی تھی۔ غزل نے پھولوں کا زیور میرے ہاتھ سے لیا ، باورچی خانے سے جوس کا گلاس لا کر دیا اور کمرے میںجاتے ہوئے کہہ گئی کہ ”اے مرے! ہم سفر، اک ذرا انتظار“.... میں نے جوس پی کر گلاس میز پر رکھا ہی تھا کہ کمرے سے صدا آئی، آنکھیں بند کر لیجئے اورتا حکمِ ثانی اسی حالت میں بیٹھے رہئے، کسی قسم کی ”بے ایمانی“ نہیں ہونی چاہئے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں، چند لمحوں کے بعد غزل کی نرم و نازک آواز آئی، آنکھیں کھول لیجئے، اجازت ہے۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو قدرت کا حَسین تحفہ میرے سامنے تھا،موتیے کے پھولوںمیں گندھی زلفیں، کلائی میںگجرے، کانوں میں پھولوں کی بالیاں۔وہ آنکھیں بند کئے، سر جھکائے میرے سامنے کھڑی تھی۔ میں نے اسے آنکھیں کھولنے کے لئے کہا توغزل نے جواب دیا کہ مجھ میں پذیرائی کی تاب نہیں۔(باقی آئندہ)