عرب علاقہ جسے مشرق وسطیٰ کے نام سے جانا پہنچانا جارہا ہے ،داخلی اور خارجی محرکات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے باعث عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایسے طوفانی ماحول میں کچھ لوگ عالم عرب کے نظام کی تشکیل نو کی تحریک چلا رہے ہیں۔ انکا کہناہے کہ ایک طاقتور عرب گروپ قائم ہو جو مشترکہ عرب مفادات کےلئے کام کرے۔ سعودی عرب فی الوقت یہی مشن چلائے ہوئے ہے۔ سعودی عرب سیاسی، اجتماعی، سلامتی اور اقتصادی مشترکہ خطرات کےخلاف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دے رہا ہے۔ بعض عرب اور غیر عرب کہہ رہے ہیں کہ عرب نظام کو پس پشت ڈال کر نیا غیر عرب علاقائی نظام قائم کیا جائے۔ اسے نئے مشرق وسطیٰ کا نام دیا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے والا فارمولا ہی معقول اور بہتر ہے۔ ایسا کرنے سے عربوں کے بڑے مفادات پورے ہونگے مگر ان دنوں عرب جس انحطاط اور زوال کے گرداب میں پڑے ہوئے ہیں، اس میں عرب نظام کی تشکیل نو کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ میرا خیال ہے کہ معمولی درجے کا اتحاد اور یگانگت بھی موجودہ ماحول میں تقریباً ناممکن ہے۔ جہاں تک نئے مشرق وسطیٰ کے قیام کا تعلق ہے تو اسے مسترد کردینے کیلئے اس کے اہداف کا تذکرہ ہی کافی ہوگا۔ نئے مشرق وسطیٰ کے قیام کے علمبردار چاہتے ہیں کہ عرب نظام کو زندہ درگور کردیا جائے۔ عرب قوم کی سیاسی اور ثقافتی شناخت کو مٹا دیا جائے۔ بعض عرب ممالک کو تقسیم کردیا جائے۔ مسئلہ فلسطین کا تصفیہ کردیا جائے۔ اسرائیل کے وجود کو قانونی حیثیت دیدی جائے۔ اسے مشرق وسطیٰ کا ممبر بنالیا جائے۔ نئے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ہی محور ی طاقت ہو۔ وہ جو کہے اسے مانا جائے ۔ وہ جس بات سے منع کرے اس سے رکا جائے۔ نئے مشرق وسطیٰ کے سیاہ سفید کا مالک اسرائیل ہی ہو۔ دراصل نئے مشرق وسطیٰ کا تصور بنیادی طور پر اسرائیل کی خاطر ہی تیار کیا گیا ہے۔ اسکا مقصد قدیم مشرق وسطیٰ کے ملبے پر نئے مشرق وسطیٰ کا قیام ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں نئے مشرق وسطیٰ کا تصور تھوپنے کی سر توڑ کوششیں کررہی ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ عرب عوام اس تصور کو قبول کریں گے یا مسترد ۔ ایسا لگتا ہے کہ عرب دنیا کے اصلی باشندوں نے بین الاقوامی طاقتوں کو نیا علاقائی نظام قائم کرنے کا اختیا ر تفویض کردیا ہے۔ اس تصور کو نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ مشکل یہ ہے کہ امریکہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں اسے نافذ کرانے کیلئے کوشاں ہے۔
نئے مشرق وسطیٰ کی اصطلاح 1902ءکے دوران امریکی بحریہ کے افسر فریڈ میہن نے استعمال کی تھی۔ انکا مقصد عرب دنیا کی تشکیل نو سے تھا۔ جہاں تک مغربی دنیا کے سیاستدانوں کے یہاں اس اصطلاح کے تصور کا مطلب ہے تو وہ نئے مشرق وسطیٰ سے عرب علاقے کے تشخص کو مٹانے اور عرب ممالک کو مغربی حکمت عملی سے جوڑنا مراد لیتے ہیں۔ یہ اصطلاح یورپی استعماریوں نے تخلیق کی ہے۔
اسرائیل نویں دہائی کے اوائل سے اس تصور پر عمل درآمد کیلئے پرجوش ہے۔ اسرائیل کے سابق صدر شمون پیریز نے 1993 ءمیں ایک کتاب جاری کی تھی جسے ”نئے مشرق وسطیٰ“ کا نام دیا تھا۔ اس کتاب میں انہوں نے اس حوالے سے اسرائیلی نکتہ نظر پیش کیا تھا۔
یہ حکمت عملی عربوںکے موجودہ انحطاط سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ عرب ملکوں کو اس میں شامل کیا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کو نظر اندازاور انہیں فلسطین سے باہر آباد کرنے کی کوششیںہورہی ہیں۔
گزشتہ عشرے کے دوران اس حوالے سے سلسلہ جنبانیوں میں کمی واقع ہوئی۔ وجہ یہ بنی کہ اسرائیل اور امریکہ کے منفی عزائم منکشف ہوگئے اور صہیونیوں نے فلسطینیوں کے خلاف جبر و تشدد میں اضافہ کردیا۔ پڑوسی عرب ممالک کو دھمکانے کا سلسلہ اپنایا۔ پھر رفتہ رفتہ سلسلہ جنبانیہ عرب عوام کے زبردست غم و غصے کے پیش نظراوجھل ہوگئیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حالیہ ایام میں اسرائیل کے مسلسل جارحانہ اقدامات کے باوجود نئے مشرق وسطیٰ کا تصور ایک بار پھر اٹھایا جانے لگا ہے۔