Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابات سے پہلے ہی بدشگونی

***صلاح الدین حیدر ***
انتخابات تو خیر طے ہیں کہ وقت ِ مقررہ ، 25 جولائی کو ہوں گے ، لیکن بدشگونی اور بدگمانی ابھی سے شروع ہو چکی ہیں جس سے بہت سے لوگ خائف ہیں کہ کہیںآپس کے لڑائی جھگڑے کے نتائج کہیں اُلٹے نہ ثابت ہوں۔کسی حد تک تو شکوک و شبہات مفروضے پر مبنی ہیں لیکن حقیقت سے پردہ اٹھانا ہی ایک مستحکم معاشرے اور مستقبل کی ضمانت ہیں۔ اسے چھپایا نہیںجا سکتا، پاکستان میں اخبارات جعلی سرخیوںسے بھرے نظر آتے ہیں، ایک جگہ تو یہ تک رپورٹ کر دیا گیا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک جج کو ڈانٹ پلا دی۔ بظاہر تو یہ محض ایک معمولی واقعہ ہے لیکن کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ بھی بن سکتاہے۔ جج شیام لال کے کیرئیر پر داغ آیا یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہے ،لیکن دوسرے جج صاحبان کے لیے سبق ضرور ہے کہ وہ آئندہ  فالتوباتوں سے اجتناب کریں۔عدالت کے وقار کو بچانے کی زبردست سرپرستی کی جارہی ہے جوکہ خوش آئند ہے۔
چیف جسٹس کو سوموٹو ایکشن لینا ہی پڑے گا۔ معاشرے کو برائیوں سے صاف کرنے میں ہی عافیت ہے۔ملک کو صاف شفاف انتظامیہ کی ضرورت ہے ، ان کے الفاظ سے کہیں بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کے فیصلے انتخابات پر اثر انداز ہوںگے،انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے۔چیف جسٹس اپنا کام کررہے ہیں برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک صاف ستھرے پاکستان کی بنیاد ڈالی جاسکے ۔ یہ تو احوال عدالتی اقدامات کا تھا جو کہ شاید ضروری ہے،لیکن کئی ایک دوسری باتیں منظر عام پر آئی ہیں جس سے فساد اور الیکشن متاثر ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔اور الیکشن تاخیر کا شکار نہ بھی ہوں تو نتائج کچھ آنے کی امید  ہے۔ کئی ایک مثالیں دلیل کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں، سب سے پہلے تو نااہل وزیر اعظم کے دیرینہ ساتھی زعیم قادری کا ٹکٹوں کی تقسیم پر اعتراض اس بات کی غمازی کرتاہے کہ (ن) لیگ میں کچھ نہ کچھ تو خلا ہے۔شریف برادران  پر الزام ہے کہ انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم میں خاندان کو اصولوں پر بے جا اہمیت دی تو کیا (ن) لیگ جس کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ وہ دوبارہ الیکشن جیت کر کم ازکم پنجاب میں ضرور دوبارہ برسر اقتدار آجائے گی،لیکن شہباز شریف کیا بڑے بھائی کا نعم البدل ہو سکتے ہیں۔ یہ اہم سوال ہے، مریم نواز کو قومی اسمبلی کی نشست NA-125  سے ٹکٹ دئیے جانے پر پارٹی کے اندر سے مخالفت ہوئی، لیکن رد کردی گئی اور مریم اب حلقہ  NA-125 سے ہی امیدوار ہوں گی۔خواجہ سعد رفیق بھی لاہور سے نہ صرف امید وار ہیں بلکہ مقابلہ پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان سے ہوگا۔ ظاہر ہے کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔
پھر ایک اور بحث چل رہی ہے کہ نواز شریف اور ان کے دیرینہ ساتھی سینیٹر پرویز رشید کے درمیان دوریاںبڑھ گئی ہیں۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار آزاد امیدوار کی حیثیت سے راولپنڈی سے انتخاب لڑیں گے۔ دوسری طرف تحریک انصاف اندرونی خلفشار سے دوچار ہے، ان کے دوسرے سرکردہ قائدین، شاہ محمود قریشی اورعمران خان کے دِست راست جہانگیر ترین کے درمیان سرد جنگ شروع ہوگئی ہے جو کسی طرح سے بھی پارٹی یا اس کے سربراہ کے لیے اچھی نوید نہیں ۔دونوںکا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ظاہر ہے آپس کے اختلافات کچھ نا کچھ تو خرابی پیدا کریں گے۔دونو ں میں تقریباً بات چیت بند ہے۔ 
اُدھر کراچی اور دو ایک اور حلقوں میں ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹی ورکرز نے اجلاس کیا ہے۔لیکن عمران بضد ہیں کہ صرف ان کو ٹکٹ دیا جاسکتاہے جو الیکشن کی باریکیوں سے واقف ہوں اور پارٹی کو سرخروکرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ الزام تو لگتا ہے کہ عمران نے لوٹوں کو ٹکٹ دئیے لیکن انتخابات جیتنا بھی تو ضروری ہوتاہے۔ ایسے اصول کس کام کے جو آپ کو منزل تک پہنچنے نہ دیں،کراچی میں ڈاکٹر عار ف علوی کے خلاف اچھی خاصی مزاحمت پائی جاتی ہے ،مظاہرے بھی ہوئے کہ انہوںنے5 سال قومی اسمبلی کے ممبرکی حیثیت سے علاقے کو نظر انداز کیا۔یہ تمام دلائل ہوسکتاہے وقتی طور پر محض مفروضہ ہوں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ نقصان کا سبب بن جاتے ہیں ، انتخابات میں پارٹی کے لیے مضر ثابت ہوسکتے ہیں۔ 
 

شیئر: