انتخابات ، تمام جماعتیں ہی مشکلات سے دوچار
صاف وشفاف الیکشن کیلئے فضا پوری طرح تیار نظر آتی ہے۔نوازشریف نے دھاندلی کا خدشہ ظاہر کیا ہے لیکن مبصرین کے نزدیک یہ محض الزام تراشی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ (ن) لیگ اب بقا کی جنگ لڑرہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔شہباز شریف نے جو وزارت عظمیٰ کے مضبوط امید وار ہیں، ایک بیان دے کر شبہات کو مزید تقویت دی ہے۔انہوںنے تسلیم کیاکہ انتخابات کے نتائج کوئی ضروری نہیں کہ (ن)لیگ کے حق میں ہی آئیں، عین ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کے ووٹ تقسیم ہوجائیں، ایسا ہوا تو نون لیگ دوسری جماعت کی حکومت کو نہ صرف تسلیم کرلے گی بلکہ اس سے بھرپور تعاون کرے گی۔ اگر کولیشن حکومت بنتی ہے تو بھی نون لیگ مثبت کردار ادا کرے گی۔
شہباز شریف کا بیان بہت اہم ہے۔ شاید انہوںنے ہوا کا رخ پرکھ لیا ہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بلکہ تحریک انصاف تک مشکلات سے دوچار نظر آتی ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ کراچی کے پرانے علاقے لیاری میںجو کہ 1970سے پیپلز پارٹی کا مضبوط علاقہ سمجھا جاتاہے، بلاول بھٹو کی تصویروں پر سیاہی پھینک دی گئی۔ ان کے پوسٹر پھاڑ دئیے گئے اور نعرے لگائے کہ بھاگ جائو۔ تم نے لیاری کے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا۔
زرداری اور فریال تالپورکے خلاف نیب کے کیس شروع ہوگئے ہیں، انکوائری ہورہی ہے۔ زرداری نے تو خیر اس کو اہمیت نہیںدی لیکن یہ دوسروں کو غلط تصور دینے کی چال بھی ہوسکتی ہے ۔ بلاول لاڑکانہ اور لیاری سے قومی اسمبلی کے امیدوارہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ لیاری گینگ کے شہنشاہ عزیر بلوچ جوکافی عرصے سے فوج کے قبضے میں ہیں۔ ہوسکتاہے زرداری سے ناراض کہ انہوںنے عزیر کیلئے کچھ نہیںکیا، ان کی رہائی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔عزیر بلوچ سے کہاں تک ان سے ناراضی کا عمل دخل ہے، یہ فی الحال مفروضے پر مبنی ہے۔
پیپلز پارٹی کیلئے آثار اچھے نظر نہیں آتے۔ پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیر نثارکھوڑوکو الیکشن کمیشن نے انتخابات کیلئے نا اہل قرار دیدیاہے، یہ بہت بڑی اور اہم بات ہے ۔ان کے خلاف الزام ہے کہ انہوں نے 3 کے بجائے بیویوں کے بارے میں اطلاع دی اور 166ایکڑ زرعی زمین کے بارے میں کاغذات نامزدگی میں کچھ نہیں بتایا۔نثار کھوڑو نے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن جب تک فیصلہ نہیں آتا یہ پیپلز پارٹی کیلئے کسی سانحے سے کم نہیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما خورشید شاہ اور سابق صوبائی وزیر ناصر حسن شاہ کے خلاف بھی ان کے آبائی شہر سکھر میں نعرے لگے اور لوگوں نے ان کے خلاف احتجاج بھی کیا ۔ ہوا بدلتی ہوئی نظر آتی ہے ، الیکشن میں 4 ہفتے ہی رہ گئے ہیں، حالات مزید پلٹا بھی کھاسکتے ہیں۔
نوازشریف تولگتاہے انتخابات تک پاکستان نہیں آئینگے ۔خبریں یہی ہیںکہ وہ پارٹی کی انتخابی مہم ٹیلی فونک خطاب کے ذریعے چلائیں گے۔انہیں کس قدر کامیابی ہوتی ہے یا شہباز شریف پوری طرح نواز شریف کا نعم البدل ثابت ہوسکتے ہیں کہ نہیںیہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی۔
الیکشن کمیشن نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایک حلقے سے نا اہل قرار دیدیا ہے۔فیصلے کا ان کی انتخابی مہم پر کتنا اثرپڑے گا دیکھنا باقی ہے۔تحریک انصاف بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہے۔اس میں ٹکٹوںکی تقسیم پر اچھی خاصی بحث جاری ہے۔کچھ لوگوں کو ٹکٹ دیکرواپس لے لئے گئے۔ظاہر ہے اس پر ناراضی تو ہوگی ۔پی ٹی آئی کے صف اوّل کے رہنما فواد چوہدری کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہوگئے ہیں۔ شاید وہ دوسرے حلقے سے لڑیں یا پھر اپیل میں جائیں۔ عمران خان نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم پر پارٹی میں اختلافات ہیں، انتخابات پر اس کا کتنا اثر پڑے گا،یہی دیکھنا ہے۔
دوسری طرف چیف جسٹس ثاقب نثار نے بینک سے قرض لینے والوں کیخلاف بیان دے ڈالا کہ ایک ایک پیسہ واپس کرنا پڑے گا ۔ یا توبینک قرضے لینے والے 75فیصد پیسہ واپس کریں یا پھر مقدمات کیلئے تیار رہیں۔اس پر خاصی لے دے ہوگی۔افواج پاکستان نے الیکشن کمیشن کو اپنی پوری حمایت کا یقین دلایا ہے۔ کورکمانڈر کے اجلاس کے بعد اعلان کیا گیا کہ آرمی الیکشن کمیشن کی بھرپور حمایت کرے گی۔ فوجی دستے پولنگ اسٹیشن کے باہر اور پولنگ اسٹیشن کے اندر تعینات کیے جائیں گے تاکہ دھاندلی روکی جاسکے۔اب اگر کوئی لیڈر یا پارٹی برے ارادے رکھتی ہے تو اسے ہوش آجانا چاہیے کہ معاملات کو پوری طرح کنٹرول کرنے کا سامان کرلیا گیاہے۔ الیکشن کے بارے میں اب لوگوں کو اعتبار آتا جارہا ہے۔ اللہ کرے کوئی اچھی حکومت اقتدار میں آئے اور چور اچکوں سے چھٹکارا مل سکے۔ دنیا ترقی کررہی ہے، ہندوستان اور بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں،پاکستان تنزلی کی طرف مائل ہے۔