بے روزگاری کی شرح کیوں بڑھ گئی؟
جمعرات 12 جولائی 2018 3:00
راشد الفوزان ۔ الریاض
محکمہ شماریات نے گزشتہ ہفتے 2018ءکی پہلی سہ ماہی کے دوران بے روزگاری اور روزگار کے اعدادوشمار جاری کرکے بتایا کہ شہری خدمات اور سوشل انشورنس کے تحت کام کرنے والے سعودی کارکنان کی تعداد 31لاکھ50ہزار409ہوگئی ہے۔ یہ تعداد 2017ءکی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں کم ہے۔ اُس وقت 1.437 افراد ریکارڈ پر آئے تھے۔ برسر روزگار سعودی شہریوں کی شرح 65.6فیصد اور ملازم خواتین کی تعداد 34.4فیصد تک پہنچ گئی۔ روزگا رکے متلاشی سعودیوں کی تعداد 10لاکھ72ہزار162 ریکارڈ کی گئی۔ اس میں 14ہزار399کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
یہ اعدادوشمار سعودیوں سے متعلق ہیں۔ سعودیوں میں بے روزگاری کی شرح 12.9فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ان میں مردوں کی شرح 7.9فیصد اور خواتین کی شرح 30.9فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اگر ہم یہ اعدادوشمار مجموعی طور پر دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ اعدادوشمار غیر معمولی ہیں۔ جب تفصیلات میں آتے ہیں تو زیادہ بڑا مسئلہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ 83.9فیصد روزگار کی متلاشی لڑکیاں ہیں۔ انکی مجموعی تعداد 9لاکھ تک پہنچ رہی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں لیبر مارکیٹ کو زیادہ موثر بنانے کیلئے مفید حل تلاش کرنے پڑیں گے۔ ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ نجی اداروں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہونگے۔ میری نظرمیں نوجوانوں کی بے روزگاری بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ روزگار کے مواقع بے شمار ہیں۔ ان کی تعداد ایک لاکھ 72ہزار ہے۔ یکم محرم 1440ھ سے ملازمتوں کی سعودائزیشن کے ذریعے مسئلہ حل ہوسکے گا۔ 12پیشے ایسے ہیں جو سعودیوں کیلئے مختص کردیئے گئے ہیں۔ اس فیصلے پر عمل درآمد سے سعودی لڑکوں کی بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ خواتین میں بے روزگاری کا معاملہ زیادہ سنگین ہے۔ میں اس سے قبل تجویز کرچکا ہوں کہ خواتین کو ریٹیل کے کاروبار میں ملازمتیں مہیا کی جانی چاہئیں۔ اس میں 10لاکھ سے زیادہ افراد درکار ہیں۔ مختلف اداروں سے فارغ ہونے والی سعودی لڑکیوں کو از سر نو تربیتی کورس کرانے پڑیں گے۔ مثال کے طور پر علم النفس اور جغرافیہ وغیرہ سے فراغت حاصل کرنے والی لڑکیوں کو آئی ٹی یا حساب کتاب کے ڈپلومہ اور تربیتی کورس کرانا ہونگے۔ یہ سارا کام سماجی اقدار و روایات کے مطابق انجام دینا ہوگا۔ خواتین کو کاروباری منصوبے شروع کرنے کیلئے فنڈز کا اجراءبھی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭