ایاد ابو شقرا ۔ الشرق الاوسط
2016ءکے دوران امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بعد وائٹ ہاﺅس میں براجمان ہونے والی شخصیت نے دنیا کے ہر علاقے کو متاثر کیا۔ البتہ ایران کے حوالے سے یہ تبدیلی توجہ طلب ثابت ہوئی۔
آجکل ایران کے شہروں اور چوراہوں پر عوام کے احتجاجی مظاہرے دن بدن شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ دوسری جانب ایران پر امریکہ کی سخت پابندیوں کا سلسلہ شروع ہونے جارہا ہے۔ اس کی الٹی گنتی کا آغاز ہوگیا ۔ اس ہفتے سے ایران کے ساتھ لین دین کرنے والے اداروں ، کمپنیوں اور حکومتوں پر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندی موثر ہوجائیگی۔ امریکی ڈالر کی ہر طرح کی ترسیل ایران کیلئے رک جائیگی۔کوئی بھی بینک ایران کو قرضہ نہیں دیگا۔ امریکی بینک ایرانی بینکوں سے کوئی لین دین نہیں کرینگے۔ ایرانی کرنسی میں لین دین پر بندش ہوگی۔ علاوہ ازیں ایران کیساتھ مختلف اشیاءسونے، لوہے ، قالین اور کھانے پینے کی اشیاءکی تجارت پر بھی پابندیاں عائد ہونگی۔ آئندہ 3ماہ کے دوران پابندیوں کی فہرست میں پیٹرول اور پٹرو کیمیکل مصنوعات بھی شامل ہوجائیں گی۔
واشنگٹن کا ماحول بہت زیادہ بدل چکا ہے۔ باراک اوباما کے دور میں ایرانی امریکی ہنی مون کا دورانیہ بڑا طویل رہا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آرہی ہے کہ ٹرمپ کے منصب صدارت پر فائز ہونے کے بعد واشنگٹن میں بڑی نظریاتی تبدیلی رونما ہوئی۔ اس قسم کی تبدیلی بڑی طاقت کے یہاں بہت بڑے پیمانے پر کبھی نہیں آتی۔ باراک اوباماکے صدر بننے سے امریکہ کی سیاسی زندگی میں ایک سے زیادہ محاذ پر بڑی حد تک انقلاب آگیا تھا۔اوباما افریقی نژاد پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے تیسری دنیا کی حکومتوں سے امریکہ کی بابت معذرتیں کیں۔
اب واشنگٹن میں ایسا کوئی رہنما نہیں جو کسی سے معذرت کرے۔ کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ حسن ہمسائیگی کے تعلقات کی بات کرے جبکہ صرف میکسیکو اور کینیڈا دو ممالک ہیں جن کی بری سرحدیں امریکہ سے ملتی ہیں۔کسی ملک کے ساتھ ترجیحی سلوک کا عندیہ دے۔ مغربی اتحادیوں کیساتھ خصوصی لین دین کا تذکرہ کرے۔ اگر باراک اوباما کا انتخاب ایک انقلاب تھا تو ٹرمپ کا انتخاب صحیح معنوں میں اس انقلاب کے مخالف انقلاب ہے۔ ٹرمپ کے جوابی انقلاب نے 8برس کے دوران پیش کی جانے والی دستبرداریوں توازن اور مفروضوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
ایرانی ملاﺅں کے ساتھ عداوت کا باب لپیٹ کر ایران کیساتھ تعلقات کو جدید خطوط پر استوار کرنا مشرق وسطیٰ کیلئے اوباما وژن کی دین تھا۔ سنگ بنیاد بنا۔ اوباما نے اپنے اس و ژن کا عملی اظہار 2011ءسے لیکر مشرق وسطیٰ میں اتحادی ریاستی نظاموں کی تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرکے کیا۔ اس کے برعکس اوباما نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ بھی کیا جس کی بدولت ملاﺅں کے نظام کو عارضی طور پر ایٹمی طاقت بننے سے روک دیا گیا۔ اوباما نے اس کے بدلے ایران کو مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے فری ہینڈ دیدیا۔
فرزند ایران امیر طاہری نے حال ہی میں ایران کے سیاسی منظر نامے سے متعلق الشرق الاوسط میں ایک مضمون قلمبند کرکے سوال اٹھایا کہ اب جبکہ ایران سے متعلق امریکی نظریہ بدل گیا ہے آیا ایران نئے امریکی نظام کی مزاحمت کریگا یا عدم مزاحمت کا راستہ اختیار کریگا۔ ایران کے سیاسی حلقوں میں آج کل یہی سوال ہر نظریہ ساز کی زبان پر ہے۔
ایران کے تضادات کو سمجھنا آسان بات نہیں۔ جو لوگ سیاسی ثقافت کی پیچیدگیو ں کو سمجھ سکتے ہوں وہی اس گتھی کو سلجھا سکتے ہیں۔ ایران میں دین، سیاست ، قومیت سمیت تمام دھارے عجیب و غریب شکل میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلتے نظر آرہے ہیں۔اصلاح پسند ہوں یا نئی دنیا کو سمجھنے والے سیاسی پنڈت ہوں قدامت پسند ہوں یا شدت پسند ہوں یاعسکری نظریات کے نفاذ میں یقین رکھنے والے ہوں سب کے سب ایک دوسرے سے مختلف بھی لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ ان دنوں ایران میں ملاﺅں کے خلاف نعرے بازی اور ولایت فقیہ کی تصاویر کو نظر آتش کرنےو الے مناظر عام ہیں۔سبز انقلاب کی بیخ کنی اور ہر طرح کی داخلی مخالفت کا خاتمہ بہت ممکن ہے اور سب ایرانی اس سے واقف ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ پاسداران انقلاب ہی آزادی سلب کررہے ہیں اوروہی مالیاتی و سیاسی بدعنوانی کے پاسبان ہیں اور وہی خارجی عسکری مہم جوئی کے قائد ہیں۔ پابندیوں سے عوامی مسائل میں عارضی طور پر اضافہ ہوگا البتہ تبدیلی کے علمبردار اس سے بیدار ہونگے اور فیصلہ کن موقف اپنانے پر آمادہ ہونگے۔ ایران کی مشکل بھی واضح ہے او راسے اس مشکل سے کس طرح نکلنا ہے اسکے راستے بھی اسکے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔
********