صدرمملکت کا دورہ ٔ برطانیہ کس مقصد کیلئے؟
***صلاح الدین حیدر ***
صدر مملکت ممنو ن حسین 6روزہ دورے پرگزشتہ روز برطانیہ پہنچے۔کس کی اجازت اور کس مقصد کیلئے ۔ کچھ پتہ نہیں ۔ اگر تو یہ دورہ سرکاری ہے تو پہلے سے اس کا ایجنڈا طے ہونا چاہیے تھا، کس سے ملاقات کریں گے، ملکہ برطانیہ سے ، برطانوی وزیر اعظم سے ، یا کچھ اور لوگوں سے۔ سرکاری طور پر خاموشی ہے، اگر وہ اپنی ذاتی حیثیت سے گئے ہیں تو بھی انہیں پرائم منسٹر یا وزارتِ خارجہ ، وزارتِ داخلہ، سے اجازت مطلوب تھی، کیا اجازت لی گئی؟ یا پہلے کی طرح تمام اصولوں کو ردی کی ٹوکری کی نظر کردیا گیا۔ کاش ہم پاکستانیوں کو یہ بات معلوم ہوتی کہ سرکاری عہدے کی کچھ لوازمات ہوتی ہیں ،جن سے روگردانی کرنا نا مناسب ہی نہیں بلکہ غیر قانونی ہے۔ اس مہینے کے شروع میں اعلان ہوا تھا کہ صدر صاحب اسکاٹ لینڈ کے 4 روزہ دورے پر 11اگست کو روانہ ہونے والے ہیں لیکن شاید انہیں سمجھابجھا دیا گیا ہو کہ حضرت آپ کی اصل مصروفیات ریاستی طرز عمل کو ٹھیک کرنا ہے، انتخابات ہو چکے ہیں اب وزیر اعظم اور گورنر صاحبان کی حلف وفاداری شروع ہونے والی ہے، آپ ہی حلف اٹھوائیں گے۔ رک تو گئے مگر بادل نخواستہ ،جیسے ہی وزیر اعظم نے حلف لیا ، وزائے اعلیٰ بھی عہدوں پر برجمان ہوئے،آپ چلے انگلستان کے دورے پر ۔اس کا خرچہ کون دے گا ۔ اس سے پہلے بھی یہ چین، اور دو ایک ممالک کے دورے کرچکے تھے، جبکہ ان کا استحقاق نہیںتھا۔نگراں وزیر اعظم کو بیرونی دورے کرنے چاہیے تھے، جنہیں یکسر نظر انداز کردیا گیا۔
جو کچھ ماضی میں ہوا چلو خیر ہے، لیکن اب جبکہ حالات بدل چکے ہیں وزیر اعظم چھوٹے سے سیکیورٹی عملے کے ساتھ باہر نکلتے ہیں، آج بھی وہ وزاتِ خارجہ صرف 6گاڑیوں کے مختصر سے عملے کے ساتھ شاہ محمود قریشی سے بریفنگ کے لئے پہنچے تاکہ پاکستانی نقطہِ نظر کو دنیا میں موثر طریقے سے پہچاننے کے ذریعے تلاش کیے جائیں۔اس درمیان ایک بظاہر تو معمولی لیکن بادی النظر میں بہت ہی اہم معاملہ تھا۔پاکستان اورامریکا کے تعلقات نرم وگرم کئی برسوں سے چلے آرہے ہیں، امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے ایک بیان دے ڈالا کہ انہوں نے عمران خان کو ٹیلی فون کیا تھا، عہدے کی مبارکباد دی، اور افغانستان میں امن و امان کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ٹیلی فون تک تو صحیح تھا، لیکن بعد میں پاکستانی وزارت ِ خارجہ کی طرف سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا کہ پومپیو نے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔
پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے، یہ بات عمران خان نے بھی پومپیو سے گفتگو کے دوران دھرائی، بلکہ زور دیا کہ امریکن اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ وزارت خارجہ میں اجلاس کے دوران عمران خان کا بیان سامنے آیا کہ پاکستان نے 60 ارب ڈالرزاور بیش قیمت معصوم جانوںکی قربانی دی ہے، اب زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو 11ہزار امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے لیکن صرف کابل میں صدر اشرف غنی کی حفاظت کیلئے اور امریکی تنصیبات کی حفاظت پر معمور ہے اور اس کا کام کیا ہے۔تین چوتھائی افغانستان کا علاقہ تو طالبان ،القاعدہ اور داعش کے زیر اثر ہے، ان پر امریکا کیوں توجہ نہیں دیتا؟ وجہ صاف ہے وہ اپنے فوجیوں کو قربان نہیں کرنا چاہتا۔ تو پھر پاکستانیوں کا خون کیا سستا ہے؟ یا امریکیوں کے خون سے زیادہ ہلکا؟عمران نے صاف طور پر کہہ دیا کہ پاکستان مزید امریکہ کی جنگ نہیں لڑ سکتا۔ جو کچھ کرنا ہے امریکہ کرے ، ہم سے ڈو مور کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ امریکہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے تھا۔