بے روزگاری بڑھنے لگی...حل کیا ہے؟
عبدالحمید العمری ۔ الاقتصادیہ
سوشل انشورنس جنرل کارپوریشن کے جاری کردہ اعدادوشمار سے پتہ چلا ہے کہ 2018ءکی دوسری سہ ماہی کے دوران نجی اداروں میں سعودی ملازمین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔یہ کمی تواتر کےساتھ 6ماہ کے دوران ریکارڈ کی گئی۔28.4000سے زیادہ کارکن کم ہوئے۔ ان میں 16.3000مرد اور 12.2000خواتین شامل تھیں۔ 2018ءسے سعودی ملازمین کی تعداد میں ہونے والی مجموعی کمی 45.9000تک پہنچ گئی۔2018ءکی دوسری سہ ماہی کے اختتام پر نجی اداروں میں مجموعی سعودی کارکنان کی تعداد 1.73ملین پر آکر ٹھہر گئی۔2017ءکے اختتام پر انکی تعداد 1.8ملین پر آکر ٹھہری تھی۔
جہاں تک غیر ملکی کارکنان کا تعلق ہے تو اعدادوشمار سے پتہ چلا ہے کہ پے درپے انکی تعداد 3لاکھ 12ہزار تک کم ہوگئی ہے۔ 2018ءکی شروعات سے تاحال 512.1000غیر ملکی کارکن کم ہوئے ہیں۔ا س طرح 2018ءکی دوسری سہ ماہی کے اختتام پر نجی اداروں میں غیر ملکی کارکنان کی تعداد 7.4ملین تک ہوگئی۔
تازہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ نجی اداروں میں صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔ غیر ملکی اور سعودی کارکنان کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ مذکورہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ نجی ادارے اپنے کارکنان سے بے نیاز ہورہے ہیں۔ مذکورہ کمی کی حقیقت یہ بھی ہے کہ غیر ملکی کارکنان سے بے نیازی اور بے دخلی جتنی زیادہ ہوئی ہے اس تناظر میں روزگار کی فراہمی کا سلسلہ محدود رہا ہے۔
کیا یہ توجہ طلب تغیرات اپنے اندر کوئی ناگہانی آفت چھپائے ہوئے ہیں۔ غیر ملکی کارکنان اور سعودی کارکنان کی تعداد میں بے وقت کمی کیا معنی رکھتی ہے؟
جواب یہی ہوگا کہ جی ہاں سعودیوں اور غیر ملکیوں کی تعداد میں بیک وقت کمی اپنے اندر کوئی آفت چھپائے ہوئے ہے۔ دراصل سعودائزیشن کے پروگراموں میں پوشیدہ خرابی کا انکشاف ابھی تک نہیں ہوسکا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نطاقات کا پروگرام اپنے اندر بڑے معنی رکھتا ہے۔
2011ءسے 2018ءتک اس حوالے سے بار بار یہ بات دہرائی جاچکی ہے۔ ان پروگراموںمیں قدرے بہتری آئی ہے اور افسوس کےساتھ ماننا پڑتا ہے کہ بنیادی خرابی کو ابھی تک چھیڑا ہی نہیں گیا ۔ اسی وجہ سے اس کے اثرات ابھی تک پڑرہے ہیں۔ 7برس قبل نطاقات پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ تب سے ہی اس قسم کے خدشات چلے آرہے ہیں اب انکے اثرات ابھر کر سامنے آنے لگے ہیں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر وہ کام جسے غیر ملکی کررہا ہو ضروری نہیں کہ سعودی وہ کام انجام دے سکتاہو۔ وجہ یہ ہے کہ تقریباً 90فیصد ملازمتیں جن پر غیر ملکی کام کررہے ہیں ایسی ہیں کہ ان کے لئے کسی قابل ذکر تعلیمی لیاقت یا فنی مہارت درکار نہیں ہوتی۔ یہی وہ ملازمتیں ہیں جو 2016ءکی چوتھی سہ ماہی سے لیکر 2018ءکی دوسری سہ ماہی تک کے دوران غیر ملکی تارکین سے خالی ہوئی ہیں جبکہ کلیدی ملازمتوں پر حسب سابق غیر ملکی قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ درمیانے درجے کی کچھ ملازمتیں ایسی ہیں جن پر غیر ملکی کام کررہے تھے اور اب وہ ان سے خالی ہوئی ہیں۔
معمولی تنخواہوں ، سادہ قسم کی صلاحیتوں والی جو ملازمتیں نجی اداروںمیں خالی ہوئیں سعودی شہریوں نے ان میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اسکا کوئی سوال بھی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ سعودی جن ملازمتوں کے چکر میں تھے وہ ان کے ہاتھ نہیں آئیں اورجو ملازمتیں خالی ہوئیں وہ انکی علمی لیاقت سے کم درجے کی تھیں۔
بار بار اس امر پر زوردیا گیا ہے کہ سعودیوں کو روزگار دلانے سے متعلق اس حکمت عملی کو بحال کیا جائے جسے معطل کردیا گیا ہے جبکہ 2010ءسے پہلے 4برس تک اس حکمت عملی نے خاطر خواہ نتائج دیئے تھے۔ اب ہمارے سامنے جو صورتحال بن رہی ہے وہ نہایت پیچیدہ ہے۔اختصار کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نجی اداروں میں ہمارے سامنے دو طرح کے چیلنج ہیں۔ پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ بعض نجی ادارے اوسط حجم کے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سعودائزیشن والی ملازمتیں ایسی ہیں جن کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ سعود ی شہریوں کو اس قسم کی ملازمتوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭