Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آف شور کمپنی مالکان کیخلاف کارروائیں کیوں نہیں؟

***ڈاکٹر منصورنورانی***
پانامہ لیکس سے شروع ہونے والااحتساب نواز شریف سے شروع ہوا اور نواز شریف پر ہی ختم ہوگیا۔باقی سارے 500ملزمان میں سے کسی ایک کو بھی چھیڑا نہیں گیا۔آج تقریباً ڈھائی سال ہونے کو آئے ہیں لیکن آف شور کمپنی رکھنے والے کسی بااثر شخص سے اِس سلسلے میں کوئی سوال تک نہیں کیاگیا۔قارئین کو یقینا یاد ہوگا کہ جب اِس ایشو پر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہورہے تھے اور ٹی او آرز طے کئے جارہے تھے تو سابق حکمرانوں کی جانب سے یہی تحفظات اور خدشات ظاہر کئے جارہے تھے کہ یہ کھیل صرف میاں نواز شریف کے خلاف کھیلاجارہا ہے اور500 ملزمان میں سے کسی اور کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی لہذا اگر اِس ایشو کو لیکر کوئی کارروائی کرنی ہے تو سارے لوگوں کیخلاف ایک ساتھ شروع کرنا ہوگی۔پانامہ لیکس میں نامزد ملزمان میں سے میاں نواز شریف کا نام تو براہ راست لیا بھی نہیں گیا تھاجبکہ ہمارے کئی اور سیاستداں ایسے تھے جن کی ایک نہیں کئی کئی آف شور کمپنیاں ظاہر کی گئی تھیں۔
  نوا ز شریف آج کل جس کرب اور ابتلا سے گزر رہے ہیں وہ اُن کے چہرے سے پوری طرح عیاں ہورہا ہے۔ دو ڈھائی مہینے کی قید نے اُن کی جسمانی اور ذہنی حالت پر بہت گہرے اثرات اور نقوش چھوڑے ہیں۔اُن کی مجبوری ہے کہ عدالتی پابندیوں کے وجہ سے وہ اپنا دکھ اور اپنا کرب بھی میڈیا سے شیئر نہیں کرسکتے۔شریک حیات کے ناگہانی وفات نے اُن کے اِس کرب میں اور بھی اضافہ کردیا ہے۔وہ اپنی اہلیہ کلثوم کی زندگی کے آخری لمحات میں اُس کے قریب نہ تھے۔سب سے بڑھکر یہ کہ وہ اپنی بہت ہی عزیز اور پیاری بیٹی کو بھی اِن محرومیوں سے بچا نہ سکے۔اپنی اولاد سے بے پناہ پیار کرنے والے باپ کیلئے سب سے تکلیف دہ مرحلہ یہی ہوتا ہے کہ اُس کی اولاد کو کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں سزا دیدی جائے اور وہ اُس کیلئے کچھ نہ کرسکے۔میاں نواز شریف جانتے ہیں کہ تکلیف کے یہ دن بھی ختم ہوجائیں گے اور وہ ایک روز باعزت طور پر رہا بھی ہوجائیں گے لیکن جب تک شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی۔اُن سے چھینا گیا وقت واپس نہیں آئیگا ۔جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو ایک عدالتی فیصلے کے تحت پھانسی پر چڑھادیا گیا اور آج اُس فیصلے کو خود عدلیہ سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ عدالتی قتل قرار دے رہے ہیں لیکن اِن سب اعترافی بیانوں او ر پشیمانیوں کا کیافائدہ جب بھٹو ہی اپنی زندگی سے چلا گیا ۔وہ واپس نہیں آسکتا۔جس شخص نے اِس ملک کو ایٹمی پروگرام دیا ہم نے اُسے ہی اپنی زندگیوں سے نکال باہر کیا۔اِسی طرح جس نے اِس ملک کو ایٹمی ریاست کا درجہ دلایا ہم نے اُسے بھی عبرت کا نشان بنادیا۔ کرپشن اور مالی بدعنوانی کے الزامات تو محض الزامات ہی ہیں ۔عدلیہ نے خود اپنے فیصلے میں اُن کی صحت و صداقت سے انکار کیا ہے۔ مفروضوں پر مبنی اِس فیصلے کے خلاف ایک اپیل کی سماعت آج کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی جارہی ہے اور بہت امکان ہے کہ یہ فیصلہ واپس ہوجائے مگر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اِس ساری کاروائی کے نتیجے میں نقصان کس شخص کا ہوا اور وصول کنندہ کون رہا۔
ویسے بھی کرپشن اِس ملک کے اداروں کیلئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ محض اپوزیشن کی سیاست کا ہمیشہ سے ہتھیار رہا ہے۔اداروں کواِس سے کوئی سروکار نہیں ۔ ورنہ کیامجال تھی کہ آصف علی زرداری اپنے 5 سال پورے کرجاتے۔ زرداری کی کامیابی کار از بھی یہی ہے کہ دوران اقتدار اُنہوں نے ہمیشہ مفاہمت کے زریں اصولوں کو اپنائے رکھا۔ اپنے 5سالہ دور میں کبھی اداروںسے لڑائی نہیں مول لی۔ اینٹ سے اینٹ بجادینے کی بات بھی کی تو اُس وقت کی جب وہ اقتدار چھوڑ چکے تھے۔نواز شریف بھی مفاہمت کرتے تو شاید آج بھی برسراقتدار رہتے۔ یہی سبق نئے آنے والے حکمرانوں کیلئے بھی ہے۔
 

شیئر: