یہ کہنا بجا ہو گا کہ اساتذہ لوہے کو کندن ،پتھر کو ہیرا ، اور صحرا کوگلستاںبناتے ہیں،یہ معمار بھی ہیں لوہار بھی ہیں اور دہقان بھی
تسنیم امجد ۔ریا ض
اردونیوز میںدھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر کے مطا بق طا لبات کی بے بسی پر استا نیو ں کو کو سنے سے پہلے ہم اس مقدس پیشے کی کچھ تفصیل بھی بیان کرنا چاہیں گے۔ ایک جانب اساتذہ نے شاگردوں کی پروا کرنی چھوڑی، تو دوسری جانب شاگردوں نے ادب ترک کر دیا۔آپ کے سا منے تصویر کے دو نو ں رخ ہیں۔قصور وار کو ن ہے، یہ فیصلہ آ پ خودکریں۔
ہم بچپن سے سنتے اور پڑ ھتے آ ئے کہ استاد و استانی روحانی باپ و ما ںہو تے ہیں ۔اسکول جانے سے پہلے داداجان ہمیں بلا کر کینٹین کے لئے کچھ جیب خرچ دیتے اور ساتھ ہی نصیحت بھی کرتے جو عام طور ہرٹیچر کے احترام کے بارے میں ہی ہوتی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے دل میں ان رو حانی رشتو ں کی عزت گھر کر گئی ۔وہی ہم نے ایک اعلیٰ روایت کی طرح اپنے بچو ں کو سکھا یا ۔
یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کوو الدین کے بعد استاد ہی تر بیت کا و سیلہ ہوتے ہیں ۔یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جولوہے کو کندن ،پتھر کو ہیرا ، بنجر زمین کوزرخیز اور صحرا کوگلستاںبناتی ہیں۔یہ معمار بھی ہیں لوہار بھی ہیں اور دہقان بھی ہیں لیکن موجودہ دور میں استاد بننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ما ضی قریب ہی کی بات ہے جب والدین بچوں کو استاد کے سپرد کر کے کہتے تھے کہ لیجئے جناب!اب چمڑی آپ کی ہے اور دمڑی ہماری ہے“، یعنی اصلاح کی غرض سے اس کی جتنی بھی پٹا ئی کر یں،ہمیں کو ئی شکایت نہیں ہو گی۔
شاگرد بھی بہت مودب ہوا کرتے تھے ۔وہ استاد کی خدمت کرنا اپنا فرض ہی نہیں بلکہ اسے نیکی سمجھتے تھے۔استاد کے سامنے نظریں جھکا کر بات کرتے تھے ۔شکوے شکایات کاتوسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔آج استاد اگر کچھ کہہ دے تو والدین لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔بچوں کے سامنے ان کا گریبان تک پکڑ نے سے گریزنہیں کرتے ۔چھوٹے چھوٹے بچے گھر آ کر ٹیچرز کی شکایتیں کرتے ہیں اور والدین ان کے سامنے انہیں برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور بچے کو یقین دلاتے ہیں کہ بے فکر رہو،کل کہ صبح جا کر آپ کے استاد یا استانی کی خبر لیتے ہیں۔ تم دیکھنا ہم ان کا کیا حشر کرتے ہیں ۔یہ الفاظ میری بہت ہی قریبی عزیز کے ہیں جو میں نے اپنے کانوں سے سنے ہیں۔
ہمارا بچپن بھی ایسے ہی گزرا ۔گھر آ کر اپنی کسی نہ کسی ٹیچر کی طر ح دو پٹہ و پٹہ او ڑ ھ کراٹھلا نا اور سامنے بیٹھی”غائبانہ “ لڑ کیو ں کو پڑھانااور انہی کے انداز میں طالبات کوڈا نٹنا۔گھر والے بھی دیکھ کر خوش ہو تے تھے ۔ہم فخر سے کہا کرتے تھے کہ بڑے ہو کر فلاں ٹیچرجیسی
بنیں گے ۔وہ تو ہما ری رول ما ڈل ہیں ۔
دھنک کے صفحے پر شائع تصویر میں طا لبات کا اس طر ح مجبو ر اً احتجاج کر نا ،بد نظمی کی ایسی مثال ہے جو ایک فلا حی ریا ست کے لئے کسی طور بھی مو زو ں نہیں۔نظم و ضبط سے مراد وہ ا صول و ضوا بط ہیںجو روز مرہ زندگی پر لا گو ہو تے ہیںاور زندگی کے پہئے کو گھمانے میں ممدہوتے ہیں ۔یہ ا خلا قی و قا نو نی ضوابط ہیں۔ ان کی جڑیں معا شرے میں بہت گہری ہو تی ہیں ۔انسان کی پیدا ئش کے بعد سے ہی ان کی نشو نما ایک پو دے کی طر ح شروع ہو جا تی ہے ۔سر زمینِ وطن کی مٹی بہت زر خیز ہے لیکن افسوس اس سے فا ئدہ نہیں ا ٹھا یا جا رہا ۔نسلِ نو کا مستقبل ان اسکو لو ں سے وا بستہ ہے ۔ایک جانب پڑھا نے وا لو ں کا ا حترام اور دو سری جا نب انہی کی جا نب سے فرا ئض سے غفلت،چہ معنی دارد ؟
اس سلسلے میں اپنی آ ج کی تحریر کو حقا ئق سے قریب تر کرنے کے لئے ہم نے و طن عزیز کی ٹیچرز سے را بطہ کیا ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ
” ہم بھی انسان ہیں۔گھر سے رو زی کمانے کے لئے نکلتے ہیں ۔ٹیچنگ کو ئی آ سان نہیں ہو تی ۔طا لبات کو پڑ ھا نا ،سمجھا نا،ان کا ہوم ورک چیک کرنا ،امتحانات کے پرچے بنا نا اور پھر سیکڑو ں کے حساب سے نتا ئج کی تیاری،کِس کِس مشقت کا ذکر کریں ۔گھر داری متا ثر ہو تی ہے تو شو ہر اور سسرال کی سننی پڑ تی ہیں ۔یہ سب بھی ہم قبول کرلیں اگر ہمیں تنخواہ وقت پر مل جا ئے ۔کئی کئی ما ہ منتظر رہنا پڑتا ہے ۔گھر کا بجٹ فیل ہو نے سے پیدا ہونے والے مسا ئل دما غ ما ﺅ ف کر دیتے ہیں ۔نتیجتاً ہم میں سے اکثر نو کری چھو ڑنے پر مجبور ہو جا تی ہیں ۔کس سے شکوہ کریں ۔اسکول انتظا میہ کہتی ہے کہ ہم بے بس ہیں۔آوے کا آ وا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ان طالبات کو کیا بتا ئیں؟ ہم میں سے اکثر ٹیو شن پڑھانے پر مجبور ہو جا تی ہیں۔اس پر بھی ہم ہی قصور وار ہیں ۔آپ ہی بتا ئیے،ہم گھر کیسے چلائیں؟ ایک مدرسہ نے کہا :
جن کے دا من کی ہوا میرے چرا غو ں پہ چلی
وہ کو ئی اور کہا ں تھے ، وہ مرے ہم دم تھے
ان حالات میں بچو ں پر کیا اثر پڑے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔اب تو تہذیب اور ادب آ داب کے اطوار بھی بدل چکے ہیں اسی لئے آج استاد بننا جو ئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔بچوں کے ذہنوں میں استاد کی عزت و وقار پامال کرنے کے ذمہ دار والدین بھی ہیں ۔بچوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ استاد تو ان کے تنخواہ دار ملازم ہیں ۔وہ خود ٹیو شن پڑ ھوانے کیلئے پہلے منتیں کرتے ہیں اور پھرخود ہی شکایت کرنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ان کا ا حترام ٹیوشن اور اکیڈمی سسٹم کے باعث بھی ختم ہوا ہے ۔استاد بے چارے کمانے کے چکر میں اپنا احترام بھول گئے ہیں ۔بعض اوقات حالات کے ہا تھو ں مجبور ہوکر اساتذہ ، والدین سے بچو ں کو ٹیوشن پڑ ھوانے کی درخواست کرتے ہیں۔ اس طر ح ان کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔طلبا ءعزت نہیں کرتے ۔استاد کی عظمت ،علم کی بارش کے مترادف ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ”با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب ۔“
ہماری تاریخ میں بیشتر وا قعات مو جو د ہیں جو استاد کی عز ت و تکریم کا سبق دیتے ہیں ۔مشہور عباسی خلیفہ ہا رون رشید نے اپنے دربا ر یو ں سے سوال کیاکہ آج سب سے زیادہ عزت کس کی ہے ؟ انہو ں نے کہا کہ بادشاہ سلامت کی ۔خلیفہ بولے کہ نہیں ،ایک استاد کی ہے پھر انہوں نے دونوں شہزادوںمامون اور امین کے جھگڑے کا قصہ سنایا کہ کس طرح ان کے اپنے بیٹے استاد کے جو تے اٹھانے کے لئے آ پس میں جھگڑا کر رہے تھے ۔
شمس ا لعلماءمو لوی میر حسن، علامہ اقبال کے استاد تھے۔وہ اپنے استاد کا بے حد ا حترام کرتے تھے ۔آپ ہی کے مشورے پر حکومت نے مو لوی صا حب کو شمس ا لعلماءکا خطاب دیاتھا ۔جب حکومت نے پو چھا کہ مو لوی صا حب نے کون سی کتاب لکھی ؟علامہ اقبال نے جواب دیا ان کی زندہ کتاب میں خود ہو ں۔عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ علامہ اقبال سیالکوٹ کے با زار میں دو ستو ں کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ انہوں نے ایک جوتا پہن رکھا تھا اور دوسرا اترا ہوا تھا ۔انہو ں نے دیکھا کہ مو لوی صا حب گزر رہے ہیں ۔یہ اسی طرح ایک جوتا پہنے دو ڑے اور ان کو گھر تک چھوڑ کر پلٹے ۔
فا تح عالم سکندر ایک مرتبہ اپنے استاد ار سطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے ۔را ستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آ گیا ۔استاد اور شا گرد میں بحث شروع ہوئی کہ نالہ پہلے کون پار کرے گا ۔سکندر اعظم نے بضد ہو کر نالہ عبور کیا اور بعد میں ار سطو نے سوال کیا کہ تم نے پہل کر کے میری بے عز تی نہیں کی ؟اس پر انہو ں نے جواب دیا ، ” نہیں استاد محترم ! میں نے اپنا فر ض ادا کیا ہے ۔ارسطو رہے گا تو ہزاروںسکندر تیار ہو سکتے ہیںلیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا ۔“
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح ہم نے اپنی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا، اسی طرح رشتوں کا بھی احترام مٹی میں ملا دیا ۔استاد اور شاگرد کا رشتہ کبھی بہت مقدس گردانا جاتا تھا ۔جب علم بھی کسبِ معاش کی خاطر حاصل کیا جانے لگا تو پھر شکوہ کیا کریں ؟تیسری دنیا کے ممالک ہی میں یہ عزت و ا حترام ختم ہوا ہے ورنہ جن ممالک کی ہم نقالی فضول رسمو ں میں کرتے ہیں وہاں یہ احترام موجودہے۔ اس کی و جہ یہ بھی ہے کہ وہاں حکومتیں انہیں اتنی مراعات دیتی ہیں کہ وہ معا شی طور پر خود کفیل ہو تے ہیں ۔انہیں ٹیو شن کے لئے منت نہیں کرنا پڑ تی ۔
ہمارے معاشرے میں استاد اور شاگرد کے روابط ایسے معیاری نہیں جیسے ہونے چاہئیں۔ آج استاد و استانی کا نام بھی حقارت سے لیا جاتا ہے ۔دھنک کے صفحے کی تصویر اس کی گواہ ہے ۔ آج کے طلباءو طالبات استادوں کے فضول قسم کے نام رکھتے ہیں۔وہ تختہ سیاہ پر لکھنے کے لئے مڑ تے ہیں تو یہ ان کا مذاق اڑا تے ہیں ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے طلبہ و طالبات کی پروا نہیں کرتے ۔ ان کے مستقبل سنوارنے کے بارے میں وہ کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔سوال یہ ہے کہ حکومتیں ان کے مطالبات کیو ں نہیں سنتیں ؟ انہیں بھی اپنے مطا لبات کے لئے سڑ کو ں پر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے ؟طا لبات کا اس طرح باہر نکلنا کیا حکومت کے لئے با عثِ شرم نہیں ؟انہیں ان کی کمتری کا احساس کیو ں دلایا جاتا ہے ؟دارالخلافہ کے پڑو سی شہر کا یہ حال ہے تو با قی دور دراز کا کیا حال ہو گا ؟وہا ں تو بھو ت سکولوں کا راج ہے اور کہیں تو کہیں انہیں ا صطبلو ں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔اسکول چھٹی کے بعد وہا ں بھیڑ بکریا ں اور گا ئے بھینسیں با ندھنے کی جگہ بنا دیا جا تا ہے ۔صبح طلباءو طا لبات کا بد بو سے برا حال ہو جاتا ہے لیکن کو ئی سنتا ہی نہیں ۔
کاش ان معمارانِ قوم کو ان کا مقام دیا جائے ۔اکثر کو شکوہ کرتے سنا ہے کہ استاد سختی بھی بہت کرنے لگے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ
ان کی تر بیت کا حصہ ہے ۔عقلمند والدین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔اکثر استاد فرسٹریشن کی وجہ سے بھی بد مزاج ہو جاتے ہیں جس کی وجہ ان کے ملا زمت کے حالات ہوتے ہیں اور معا شی اونچ نیچ بھی
اگر ہم ایسی تعلیم کے خوا ہا ں ہیں جو دلِ بینا اور خوابیدہ صلا حیتو ں کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنے تو ہمیں اس وسیلے کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنی چاہئیںجس کے ذمے یہ فرض ہے ۔استاد کی دعا سے تو ا خروی زندگی میں بھی نکھار آ تا ہے ۔ ” استاد معاشرے کے با غبان ہیں“
علا مہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھاکہ:
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی