نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق فلم سازی اور فنڈنگ
بشریٰ فیصل السباعی۔ عکاظ
ہر برس کی طرح امسال بھی عرب چینلز نے حج کے موقع پر ایک دینی فلم کا انتخاب کیا۔ یہ مذہبی تہواروں اور تقریبات کے موقع پر عرب چینلز کا پرانا معمول ہے۔ امسال 1976ءمیں جاری کردہ فلم ”پیغام“ ناظرین کو دکھائی گئی۔ میرے نقطہ نظر سے یہ فلم انتہائی منفی نوعیت کی ہے۔ اسکی موسیقی بے شک اچھی ہے ۔ اس فلم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی تصویر مسخ کر ڈالی ہے۔اس فلم کا محور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی ، اخلاقی اور انسانیت نواز شخصیت یا اسلام کی اعلیٰ مثالی تعلیمات اور پاکیزہ اقدار کو نہیں بنایا گیا بلکہ مسلمانوں اور اہل شرک کے درمیان جنگ اور عداوت کو اس میں اجاگر کیا گیا۔ عصر حاضر میں جو اسلامی رجحانات چھائے ہوئے ہیں وہ اسلام کی روح سے یکسر دور ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شعور و آگہی سے انکا دور دور تک کوئی رشتہ ناتہ نہیں۔ خواتین کو انسانی حقوق سے محروم کرنے اور انہیں طرح طرح سے ستانے کے پہلوﺅں سے وابستگی انکی نمایاں پہچان بنی ہوئی ہے۔ یہی وہ پہلو ہیں جو مسلمانوں کی تباہی اور اسلام کی سرکوبی کا باعث بن رہے ہیں۔ عصر حاضر میں رائج اسلامی دھارے دینی تعلیم کے حوالے سے معیار کے بجائے مقدارپر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ انکے یہاں اخلاقی ، روحانی آگہی او رگہری فکر کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ مسلمانوں کو خصوصاً اوربنی نوع انساں کے مختلف معاشروں کو عموماً ایسی فلم کی ضرورت تھی اور ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معیاری شعور و آگہی اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو انکی درخشاں شکل میں پیش کیا جائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ارشادات کو اجاگر کیا جائے جن میں وہ فرماتے ہیں کہ بغض انسان کو دین سے مکمل طور پر عاری کردیتا ہے۔ محبت کرنے والوں کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کی تمنا انبیائے کرام اور شہدائے عظام بھی کرتے ہیں۔
اکثر مسلمانوں نے ان ارشادات کے بارے میں نہ سنا اور نہ ہی انہیں اپنایا۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ایسی ایک فلم دسیوں اسلامی چینلز سے زیادہ موثر اور کارگر ثابت ہوگی۔اسلامی چینلز سے سطحی قسم کے مضامین کچھ اس انداز سے پیش کئے جاتے ہیں جن سے خوش گوار تاثرکے بجائے راہِ فرار اختیار کرنے کا دل چاہنے لگتا ہے۔ کاش کہ کوئی ایسی فلم بنائی جائے جس میں اُن احادیث مبارکہ کے خزانے آراستہ وپیراستہ شکل میں پیش کئے جائیں جو اکثر انسانوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مغربی دنیا کے متلاشیانِ حق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے درخشاں پہلوﺅں سے واقفیت کے بعد انہیں سلام ِتعظیم پیش کرینگے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی بابت دہشتگردانہ حملوں کی نفی اسی قسم کی فلموں سے ہوسکے گی۔ یہ لاکھوں دعوتی کتابچوں اور دعوتی وفود سے کہیں زیادہ موثر ثابت ہوگی۔ امریکہ نے ”کیریبی کے چور 2011ئ“ نامی فلم تیار کی تھی ۔ اس کی لاگت397ملین ڈالر آئی تھی۔ یہ محض تفریحی فلم تھی۔ اسکا کوئی منفرد اسکرپٹ بھی نہیں تھا۔ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلق بہت خوبصورت فلم دنیا کو دے سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭