Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکس ختم نہیں ہوگا

***وسعت اللہ خان ***
کہا جاتا ہے یونان جدید جمہوریت کی ماں ہے۔عام شہری کے ووٹوں سے پہلی شہری ریاست ( سٹی ا سٹیٹ ) ایتھنز میں پیدا ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ آج کا مغرب  دراصل یونانی سٹی ا سٹیٹ کی ایک جدید شکل ہے۔
مگر یونانی تمام تر ترقی اور جدید سوچ کے باوجود سکندرِ اعظم کی عارضی فتوحات کو چھوڑ کر ویسی سلطنت قائم نہ کر پائے جیسی بعد ازاں رومن اور پھر ایرانی اور پھر عرب اور پھر نوآبادیاتی طاقتیں قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں اور آج یہی سلطنت نیو کلونیل ازم کے نام پر بین الاقوامی کارپوریشنوں کی بادشاہت ہے اور چند سو لوگ دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں۔منگول طوفان کی طرح اٹھے ضرور مگر اپنی حکمرانی کو وہ پائداری کیوں نہ دے سکے جس کے لئے رومن ، ایرانی ، عرب ، مغربی نوآبادیاتی اور آج کی گلوبل سرمایہ دارانہ سلطنت جانی جاتی ہے۔
اس بابت متعدد وجوہ پر قیامت تک بحث ہو سکتی ہے مگر پہلے کے مقابلے میں اب یہ دیکھنا زیادہ آسان ہے کہ کسی طبقے یا شخص کی آمریت جسمانی جبر کی بنیاد پر بہت زیادہ کیوں نہ چل سکی اور جن سلطنتوں نے عوام کے زہنوں پر قبضہ کیا اور بنیادی مسائیل سے عوامی توجہ ہٹانے میں کامیاب رہیں وہ تادیر قائم رہیں۔ 
رومنوں نے اگرچہ یونانی طرزِ حکومت سے بہت کچھ لیا۔فیصلہ سازی کے اختیارات منتخب رومن سینیٹ کو حاصل تھے اور وہی اہم امور میں قانون سازی بھی کرتی تھی۔کبھی بادشاہ اس پر حاوی ہوجاتا تھا تو کبھی سینیٹ بادشاہ پر۔مگر سینیٹ دراصل اشرافیہ کا  کلب تھی۔ اقتدار کی میوزیکل چئر گیم عام رومن شہری دیکھ کر تالیاں تو بجا سکتا تھا مگر اس کلب میں داخل ہونا محال تھا۔لیکن یہ بھی ضروری تھا کہ فیصلہ سازی میں عام آدمی کی عدم شرکت سے پیدا ہونے والے ممکنہ احساسِ محرومی کو بغاوتِ عام کی شکل ملنے سے پہلے پہلے وقتاً فوقتاً کچھ اس طرح کے توجہ ہٹاؤ اقدامات کئے جاتے رہیں کہ انہیں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملے کہ ان کے نام پر جو فیصلے ہورہے ہیں ان کا بیشتر فائدہ مٹھی بھر اشرافیہ ہی کیوں اٹھا رہی ہے۔اتنی بڑی سلطنت کے پھل صرف اشرافیہ کی گود میں ہی کیوں ہیں۔مالِ غنیمت اور نوآبادیاتی خوشحالی میں ہمارا حصہ اتنا کم کیوں ہے ؟ ہمارے لئے اناج کیوں مہنگا ہے ؟ ہم صرف توسیعِ سلطنت کی جنگوں کا ایندھن بننے کے لئے ہی کیوں ہیں ؟ اگر مقبوضہ علاقوں کے غلام وافر ہیں تو یہ سب حکمران طبقے کی خدمت کے لئے ہی کیوں ہیں ؟ 
انہی سوالات سے بچنے کے لئے اشرافیہ نے گریٹ رومن سرکس کی بنیاد رکھی۔جیسے ہی رومن شہریوں میں کسی بھی معاشی و سیاسی بحران کے سبب بے چینی کے آثار نمایاں ہوتے کھیلوں کا اعلان ہو جاتا۔روم کے کولوسئم کے دروازے کھل جاتے اور زرا دیر میں اسٹیڈیم  جنتا سے بھر جاتا۔آج بھوکے شیروں اور گلیڈی ایٹرز ( تربیت یافتہ غلام )  کی لڑائی ہوگی۔کل نوکدار سینگوں والے بیلوں اور غلاموں کا دنگل ہوگا۔پرسوں گریٹ رومن آرمی کے چاق و چوبند گھڑ سوار جنگی مشقوں کا مظاہرہ کریں گے۔اگلے روزحکمراں کولوسئم میں مقابلے دیکھنے تشریف لائیں گے اور اس موقع پر اپنے پیارے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ اہم اعلانات کریں گے اور نئی فتوحات کی خوشخبریاں سنائیں گے۔اس سے اگلے دن معزز سینیٹرز بھی عوام کے درمیان بیٹھنے کے لئے تشریف لائیں گے اور جن باغیوں کی سزائے موت پر عمل ہونا ہے انہیں عظیم رومن عوام کے سامنے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
ایرانیوں نے عام آدمی کو سوال سے محروم کرنے کے لئے اور بہتر طریقہ نکالا۔ مغلوں نے جنتا کو دبدبے میں رکھنے کے لئے ایسی دبدبہ دار عمارات اور عظیم منصوبوں  کا سہارا لیا جن سے اشرافیہ کی سطوت کا سکہ جما رہے اور لوگ اسی میں لگے رہیں واہ کیا تاج محل بنایا ہے۔تم نے فتح پور سیکری کے محلات دیکھے ؟ بھیا مجھے تو لگتا ہے کہ دلی کا لال قلعہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ٹھیک ہے پچھلے سات برس ہمارے علاقے میں قحط پڑا رہا مگر یہ بھی تو دیکھو کہ بادشاہ نے لگان آدھا کردیا۔
راجستھان میں جب لوگ بھک مری میں مبتلا ہونے لگتے تو راجپوت رجواڑے بھوکوں کو روزگاری مصروفیت دینے کے لئے کسی قلعے یا محل کا منصوبہ شروع کر دیتے۔اسی لئے آپ کو راجھستان میں بیسیوں شاندار قلعے اور محلات نظر آتے ہیں جن کا بظاہر کوئی معاشی یا عسکری جواز نہ بھی رہا ہو۔مگر عوامی استعمال کی پرانی عمارات بہت کم ہیں۔
پھر یہ ہوا کہ لوگ پڑھ لکھ گئے اور ’’ باشعور ’’ ہونے لگے۔حکمران طبقات اور ان کی ضروریات و تقاضے بھی بدلتے چلے گئے۔چنانچہ لالی پاپ بھی بدلنے پڑ گئے۔سوچئے ہٹلر کے دن اقتدار میں رہتا اگر وہ ’’  خون چوسنے والی یہودیوں ’’ اور منتقم جرمن دشمن مغربی طاقتوں ’’ اور سوویت کٹھ پتلی جرمن کیمونسٹوں کا پنچنگ بیگ ’’ باشعور ’’ جرمن عوام کے سامنے نہ لٹکاتا اور انہیں خالص آریائی خون کی حکمرانی کا باجا تھماتے ہوئے میدانِ جنگ کی طرف نہ دھکیلتا۔
ایک عام امریکی کو نہ کبھی بیس بال میچ دیکھنے سے فرصت ملے گی اور نہ ہی وہ سوچے گا کہ آخر باقی دنیا کے لوگ امریکہ سے پیسے لے کر امریکہ کو گالیاں کیوں دیتے ہیں۔پوٹین اور اس کے راتوں رات نودولتیوں کی امپائر برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ عام روسی کے کان میں مسلسل پھونکا جاتا رہے ’’ میرا ساتھ نہ دیا تو مغرب کچا کھا جائے گا ’’۔آر ایس ایس کو جب لگنے لگے کہ ان کا مودی  وعدے کے باوجود ’’ اچھے دن ’’ نہیں لا پا رہا تو اس سے پہلے کہ لوگ سوال اٹھانے لگیں انہیں ’’ غدار ’’ تلاش کرنے پر لگا دو ، گائے کے گوشت کی گھر گھر تلاشی میں مصروف کر دو وغیرہ وغیرہ۔
عظیم رومن سرکس پچھلے ڈھائی ہزار برس سے جاری ہے اور جاری  رہیگا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں