شاہ محمود کی کامیاب سفارتکاری
اب تک کا اصول تو یہی رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت ہی ملک کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں وہ اپنے ملک کے مسائل، بین الاقوامی امور، خطے اور دُنیا میں امن کی کوششوں اور خطرات سے آگاہ کیا کرتے ہیں تاکہ دُنیا کے سامنے اپنے ملک کا نقطہ ٔ نظر صحیح طور پر رکھ سکیں اور اگر کچھ غلط فہمیاں یا شکایتیں ہیں تو اُن کی وجوہ سے دُنیا کو باخبر کیا جاسکے۔
چاہیے تو یہی تھا کہ وزیراعظم حکومتی سربراہ کی حیثیت سے جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے لیکن چونکہ اُن کے سامنے مصیبتوں کا دیوہیکل پہاڑ کھڑا تھا جس پر فوری توجہ کی ضرورت تھی تو اُنہوں نے اپنے بجائے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس کام کے لیے چُنا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے عمران کے فیصلے پر تنقید ہی نہیں کی بلکہ یہ بھی شکوہ کیا کہ شاہ محمود کو اردو کے بجائے انگریزی میں تقریر کرنی چاہیے تھی تاکہ دُنیا پاکستان کے نقطۂ نظر کو سمجھ سکے۔ تنقید اپنی جگہ لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس مرتبہ جنرل اسمبلی میں ہندکے وزیراعظم نریندر مودی، روس کے صدر ولادی میر پوٹین، چین کے صدر جنگ ژی پنگ سمیت کئی ایک ممالک کے سربراہان نے حاضری سے گریز کیا تو پھر عمران کو وہاں کیا ملتا۔ اتنے بڑے اجلاس میں جانے کا ایک مقصد تو بیان کردیا گیا اور دوسرا بڑا مقصد عالمی رہنمائوں کے درمیان تبادلۂ خیالات بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے جس سے عالمی امن جیسے بڑے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
لیکن یہاں تو نہ جانے کیوں ایسا ہوا کہ کئی ایک بڑے ممالک نے اجلاس کو ثانوی اہمیت دی۔ اقوام متحدہ میںپاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی پہلے ہی عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کرچکی تھیں اور حالاتِ حاضرہ پر بریفنگ دی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھاجو صحیح ثابت ہوا۔ اُن کے نمائندے شاہ محمود قریشی نے بہت ہی خوبصورتی سے اپنے فرائض انجام دیئے۔ جو ذمے داری اُن کو دی گئی تھی اُس سے جس طرح عہدہ برآ ہوئے وہ نہ صرف اطمینان بخش تھا بلکہ ملک کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ اُردو میں تقریر کرنا بُرائی نہیں، بہت بڑی بات تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے تو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تلاوت کلام پاک تک کروادی تھی جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ایک اور ملک کی خاتون وزیراعظم نے عربی میں تقریر کی تو پھر اُن پر تنقید کیوں نہیں ہوئی؟ تنقید برائے تنقید سے فائدہ کوئی نہیں، تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ کوئی عام آدمی اگر ایسی بات کہتا تو نظرانداز کردی جاتی لیکن 2باروزیراعظم رہنے والی خاتون کے بیٹے، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ اور کئی بار جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل سے خطاب کرنیوالے بھٹو صاحب کے نواسے کو ہر چیز سے واقفیت ہوگی، پھر اُنہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ ہر تقریر کا ترجمہ تقریر کیساتھ ہی جاری رہتا ہے۔بہت سے سربرا ہان مملکت اپنی قومی زبانوں میں تقاریر کرتے ہیں، دُنیا اسے سراہتی ہے۔ وزیر خارجہ نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا۔
پھر اُن کی تقریر جامع اور مرصع تھی۔ اُنہوں نے کشمیر میں ہندوستان کے مظالم سے لے کرکلبھوشن یادیو کی پاکستان کیخلاف خفیہ حرکتوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ نہتے کشمیریوں پر ہندوستانی فوج کے مظالم، کشمیریوں کے جذبۂ آزادی، اُس پر 2سال سے چلنے والی تحریک جو تمام کوششوں کے باوجود آج تک نہیں رُک پائی، اتنی تفصیل سے پہلے کسی بھی وزیراعظم یا صدر مملکت نے اس پر روشنی نہیں ڈالی تھی۔
شاہ محمود کی تقریر پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خان یا پھر کسی حد تک ذوالفقار علی بھٹو کی تقاریر کے بعد بڑی مثبت نظر آئی۔ کئی ایک وزرائے اعظم یا صدور ِمملکت تو ہند کا نام بس برائے نام لیتے تھے۔ قریشی نے ہندوستان کا اصل چہرہ دُنیا کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کیا۔ اُن کی تقریر چند بہترین تقاریر میں سے تھی اور تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھی جائے گی۔
جب وہ تقریر کررہے تھے تو ہندوستان کے نمائندوں کے چہرے پر اُداسی ٹپکتی صاف نظر آرہی تھی، پھر اُن کی وزیر خارجہ نے اُس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ صرف پاکستان کو ہمیشہ کی طرح دہشت گرد ملک کہہ کر رہ گئیں۔ دلائل کا جواب دلائل سے دیا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے، جب پچھلے سال نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا، تو سارا ہال خالی تھا اور مودی کے خطاب کے وقت بھرا ہوا تھا۔ اس مرتبہ معاملہ اُلٹا تھا۔ شاہ محمود قریشی نے بیشتر ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرکے پاکستان کے لیے حمایت حاصل کی اور ہال 3چوتھائی بھرا ہوا تھا۔
نیویارک کے بعد وزیر خارجہ نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر، وزیر خارجہ پومپیو اور کئی دوسرے اہم رہنمائوں سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور پاک امریکی تعلقات کو نئے سرے سے اُستوار کرنے پر زور دیا۔ پاک امریکہ تعلقات اب پہلے کی طرح نہیں چل سکتے۔ اُنہیں ایک نئی جہت کی ضرورت ہے۔ ڈومور کا سلسلہ عمران خان کے کہنے پر بند کردیا گیا ہے۔پاکستان ایک خودمختار ملک ہے۔دوسروں سے ڈِکٹیشن نہیں لے سکتا، وہی کرے گا جو اُس کے مفاد میں ہوگا۔ عمران نے یہ بات امریکی وزیر خارجہ پومپیو کے دورۂ اسلام آباد میں صاف صاف کہہ دی تھی کہ ڈومور کے بجائے نو مور۔ ہم دوسروں کی جنگ اب نہیں لڑیں گے۔ یہی ایک باعزت قوم کا انداز ہونا چاہیے جسے عمران نے بھرپور طور پر دُنیا کی عظیم طاقت کے سامنے پیش کیا اور قوم سے داد پائی۔ اختتام میں یہ اب بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ شاہ محمود قریشی کا دورہ بڑی حد تک کامیاب رہا۔ تفصیل سے اندازہ لگانے کے لیے وقت درکار ہے۔