’’خاشقجی بحران‘‘ کے نتائج و اثرات
اتوار 21 اکتوبر 2018 3:00
عبدالرحمان الراشد۔ الشرق الاوسط
میں نے یہ کالم رفیقۂ کار جمال خاشقجی ؒ کی وفات سے متعلق سعودی عرب کے سرکاری بیان کے اجراء سے قبل تحریر کیا تھا ۔ اس وقت تک امید تھی کہ خاشقجی منظر عام پر آجائیں لیکن اب یہ امید دم توڑ گئی ہے ۔ سعودی عرب نے جیسے ہی محکمہ خفیہ کی تشکیل نو اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف سزائوں اور بحران کی تفصیلات جاری کیں معاملہ 2فریقوں میں منقسم ہو گیا۔ایک تو وہ فریق جو قصور وار کو سزا دیکر مسئلے کے حل کا خواہشمند تھا اور ہے ،دوسرا فریق وہ جو خاشقجی کے بحران کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کرنے کے درپے ہے ۔
خاشقجی کے بحران پر متعدد حکومتوں اور اداروں نے سعودی عرب کے خلاف انتہائی کڑا موقف اختیار کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خاشقجی کے بحران نے سعودی عرب کو بڑا دکھ دیا۔کڑے موقف ، پسپائی اور مسلسل ابلاغی پروپیگنڈے کے باوجود سعودی عرب موثر کلیدی ریاست رہے گا اور وسیع البنیاد تعلقات برقرار رکھے گا ۔ اپنا روایتی کردار ادا کرتا رہے گا ۔ علاقائی اثرونفوذ باقی رہے گا ۔ سعودی عرب متاثر تو ہو گا لیکن معطل نہیں ۔مختلف ممالک کے اعلیٰ مفادات اور سعودی عرب کی خواہش اس سلسلے میں معاون ثابت ہو گی ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سعودی پٹرول سے دنیا کا کوئی ملک بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔ یہ بین الاقوامی معیشت کیلئے شہ رگ کا درجہ رکھتا ہے ۔ اسی طرح خطے میں سعودی عرب کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت پر حرف تنسیخ نہیں پھیرا جا سکتا ۔سیاست کی دنیا میں جغرافیائی محل و قوع کی اہمیت غیر متزلزل حقیقت کے طور پر مسلم ہے۔سعودی عرب کے دینی اثر و نفوذ کو بھی نہیں مٹایا جا سکتا کہ یہ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کا مرکز ہے ۔ مملکت کے علاقائی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے 2اہم سبب ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ یہ خطہ 2بنیادی کیمپوں میں منقسم ہے ۔ دوم یہ کہ سعودی عرب خطے کے بہت سارے ممالک اور اداروں کی مالی اعانت کر رہا ہے ۔ کسی بھی فریق کیلئے متبادل طاقت بننا آسان نہیں ہوگا ۔ مختصر یہ کہ سعودی عرب کو کمزور کرنے کا نتیجہ خطے میں ناکامی اور بے چینی کا حلقہ وسیع کر دے گا۔
پہلے تو ہم خاشقجی کی گمشدگی پر ششدر تھے، اب سعودی عرب کیخلاف پروپیگنڈہ مہم پر حیران ہیں ۔ خاشقجی کی گمشدگی کی تحقیقات کے مطالبے قابل فہم ہیں لیکن سعودی عرب پر پابندیاں لگانے اور سیاسی بائیکاٹ کے مطالبے جاری رکھنا قابل فہم نہیں ۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عالمی برادری مختلف حوالوں سے دنیا بھر کے ممالک کے درجہ بندی کرتی ہے ۔ ایسا کرنیوالوں کا خیال ہے کہ وہ سعودی عرب کا احتساب خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ بہتر شکل میں کرتے ہیں ۔ ساتویں عشرے کے بعد یہ اپنی نوعیت کا پہلا بحران ہے ۔ اس سلسلے میں ایران یا دمشق کے حکمرانوں سے جتنے کچھ کی توقعات وابستہ ہیں سعودی عرب سے ان سے کہیں زیادہ توقعات وابستہ کی گئی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ پیمانے خطے کے مزاج اور یہاں جاری خطرناک سازشوں کو مدنظر نہیں رکھ رہے ۔
اگر سعودی عرب کو کمزور کرنے کیلئے علاقائی دبائو جاری رہا تو اس کی بھاری قیمت چکانا ہو گی ۔ سعودی عرب کی کمزور ی سے خطے کے دیگر ممالک کمزور ہوں گے ۔ ایران ، حزب اللہ ، حوثی ، القاعدہ اور داعش مضبوط ہوں گے اسی لئے انتہا پسند طاقتیں اور ان کے اتحادی خاشقجی کے مسئلے کو ابھارنے کی ہر ممکن کوشش کرینگے ۔