فواز عزیز ۔ مکہ
* * * *
مجھے پورا یقین اور اعتماد ہے کہ انسانیت نواز اور عدال پرور ریاست سعودی عرب تحقیقاتی عمل مکمل ہونے پر واردات کرنیوالوں سے جمال خاشقجی کے خون کا بدلہ لیکر رہے گی۔ جمال خاشقجی کے قتل کا قصہ انصاف اور ایمانداری سے منطقی انجام کو پہنچ کر رہے گا۔ جرم کرنیوالے ہر شخص کو اپنے کئے کا منصفانہ بدلہ مل کر رہے گا۔
وطن عزیز سعودی عرب نے انتہائی جرأت اور مکمل شفافیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، مکمل حقائق پوری دنیا کے سامنے پیش کردیئے۔ یہ ہمارے لئے فخر و ناز کا باعث ہے۔ سعودی عرب نے سارے جہاں کو یقین دلا دیا کہ سعودی عرب عدل و انصاف کا علمبردار ملک ہے، سعودی عرب کو اپنے شہریوں کا امن عزیز ہے۔ اس کیلئے ایسے کام ناقابل قبول ہیں جو سعودی عرب، اس کی قیادت اور اس کے عوام سے میل نہ کھاتے ہوں۔ یہ کام سعودی ہی کیوں نہ کریں۔فیصلہ کن بات عدالت ہی کی ہوگی۔
تحقیقاتی عمل ، مقدمے اور سیاسی آویزشوں سے قطع نظر یہ حقیقت کسی پر پوشیدہ نہیں کہ بعض لوگوں نے خاشقجی کے سانحے سے انتہا درجے ناجائز فائدہ اٹھایا، سعودی عرب کیخلاف دروغ بیانیوں کا جم کر پرچار کیا۔ مملکت کیخلاف نفرت و عداوت کا طوفان برپا کیا۔ اس واقعہ نے دشمنوں اور نفرت کے پرچارکوں کے اصل چہرے بھی دنیا کے سامنے پیش کردیئے۔ اس سب سے قطع نظر میں آج کا کالم صرف اور صرف جمال خاشقجی کے نام کررہا ہوں۔
ہر صحافی کے اختلافات ہوتے ہیں۔ اس کی دشمنیاں ہوتی ہیں، مگر خاشقجی ایسے صحافی تھے جو سب کے دوست مانے جاتے تھے ۔ ان لوگوں کے بھی جن سے وہ اختلاف کرتے تھے اور ان لوگوں کے بھی جن سے وہ دوستی رکھتے ۔ 2اکتوبر 2018ء کو جمال خاشقجی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے عظیم الشان صحافتی ترکہ ہم لوگوں کیلئے چھوڑا۔ وہ جنگوں کے رپورٹراور لڑائیوں کی منظر کشی کرنے والے صحافی تھے۔ انہوں نے صحافت کی خاطر خطرات مول لئے، افغانستان، پاکستان ، سوڈان، شیشان ، الجزائر، ہندوستان، بوسنیا اور کویت میں جنگوں اور معرکوں کے طوفانوں میں زندگی گزاری۔ وہ 3بار ایڈیٹر انچیف بنے ۔انہوں نے ایڈیٹر انچیف کے طور پر سب سے کم دورانیہ الوطن اخبار میںگزارا جہاں وہ صرف 52دن تک ہی اس منصب پر کام کرسکے۔ انہوں نے پہلی بار 2003ء کے دوران الوطن کی قیادت کی ۔اس کے بعد انہیں لندن میں سعودی عرب کے سابق سفیر شہزادہ ترکی الفیصل کا مشیر بنایا گیا۔ پھر امریکہ کے سفارتخانے میں بھی خاشقجی نے الفیصل کے مشیر کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے صحافت سے اپنا رشتہ دوبارہ جوڑا ۔ 2007ء میں الوطن کے ایڈیٹر انچیف بنائے گئے۔ 2010ء تک کام کرتے رہے۔ پھر انہیں العرب نیوز چینل کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ 3برس سے زیادہ عرصے تک العرب نیوز چینل کو بناتے سنوارتے رہے، مشکلات سے دوچار ہوئے۔ یہ چینل نصف یوم کام کرنے کے بعد بند کردیا گیا۔ اس طرح صحافت سے ان کا رسمی تعلق تمام ہوگیا۔ کالم نگاری اور ٹی وی مکالموں میں شرکت تک ان کی صحافتی شرکت محدود ہوگئی۔
عمر المضواحی ؒ نے العرب چینل بند ہونے پر جمال خاشقجی کی بابت تحریرکیا تھا کہ خاشقجی روشنیوں سے دور نہیں جاسکتے۔ ان کی زندگی کی ڈکشنری میں سایہ بننے کا کوئی امکان نہیں۔
جمال خاشقجی اختلافات کے باوجود نہ تو غصہ کرتے تھے ، نہ تلخ کلامی پر آمادہ ہوتے تھے۔ وہ نرم خو اور نرم گو تھے۔ بحث و مباحثوں میں قائل کرنے اور قائل ہونے کے اصول پر عمل پیرا تھے۔ سب کے دوست تھے۔ اس کا ثبوت امریکہ میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلطان کا وہ بیان بھی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مملکت میں خاشقجی کے بہت سارے دوست ہیں ان میں سے میں ایک ہوں۔ خاشقجی بیرون مملکت سرکاری فیصلوں پر تنقید تو کرتے تھے لیکن خود کو مخالفین کی صف سے دور رکھتے تھے۔ وہ معمولی صحافی نہیں تھے۔سعودی عرب میں ہمیشہ اپوزیشن رہی لیکن گھٹیا اپوزیشن سے کبھی مملکت کا واسطہ نہیں پڑا۔ کسی مخالف رہنما نے کسی بھی حالت میں سعودی عرب کو بدنام کرنے کی روش اختیار نہیں کی۔