Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خدمتِ خلق ،ایمان کا تقاضا

عبادت صرف نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کا نام نہیں بلکہ ہر معاملہ میں اطاعت الٰہی کا نام ہے، اطاعت میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں
*  * شمس الہدی قاسمی ۔مہراج گنج،ہند* *

    قرآن مجید اوررسول اکرم کی تعلیمات وسیرت نے سکھایا ہے کہ سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اورکسی کو تکلیف نہ دے۔غریبوں ، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج وغم سے پاک کرنے کو کوشش کرے ،چند لمحوں کیلئے ہی سہی، انہیں فرحت ومسرت اورشادمانی فراہم کرکے ان کے درد والم اورحزن وملال کو ہلکا کرے۔ انہیں اگر مدد کی ضرورت ہوتو ان کی مدد کرے اوراگر وہ کچھ نہ کرسکتاہو تو کم ازکم ان کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے۔ اللہ کے پیارے حبیبنے ارشاد فرمایا ہے :
     ’’بہترین انسان وہ ہے جودوسرے انسانوں کے لئے نافع ومفید ہو۔‘‘
    جب انسان کسی انسان کی مدد وحاجت روائی کرتاہے تو فطری طور پر دونوں کے درمیان اخوت وبھائی چارگی کے جذبات پیدا ہوتے اورالفت ومحبت پروان چڑھنے لگتے ہیں۔آپ کا ارشاد پاک ہے:’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ،تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا یہاںتک کہ اپنے دوسرے بھائیوں کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتاہے۔‘‘(بخاری)۔
     خدمتِ خلقِ خدا کے عام معنیٰ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔خدمت خلقِ خدا محبت الہٰی کا تقاضا،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔ صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی کفالت کرنا،کسی کو تعلیم دینا،مفید مشورہ دینا، کوئی ہنر سکھانا،علمی سرپرستی کرنا،تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا،کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔
    انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اس لئے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی نہیں گزارسکتا۔اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے۔ مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے، اس لئے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کیلئے آپسی تعاون،ہمدردی،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے۔مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علمبردار ہے،اس لئے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو،سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کریں۔
    قارئین کرام! نماز کے قیام کے ساتھ قرآن مجید فرقان حمید میں زکوٰۃ اور صدقات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کثرت سے فرمایا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات اور لوگوں کو کھلانا پلانا اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مقبول عمل ہے۔ یاد رہے، موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔ موت چونکہ اس دنیا سے خاتمے اور دوسرے جہاں میں مستقل منتقل ہوجانے کا نام ہے لہٰذا موت کے بعد کوئی بھی ذی روح نیا فعل سرانجام نہیں دے سکتا، جس کا اسے ثواب ملے۔ ہاں اس کی زندگی میں دیا جانے والا صدقہ جاریہ، نیک اولاد، اللہ تعالیٰ کو دیا گیا قرضہ حسنہ اور فلاحی و رفاعی کام ہی جو اس نے زندگی بھر سرانجام دیے ہیں، اس کے لیے ثواب اور نجات کا مسلسل باعث بنتے رہیں گے، جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمیدکی سورہ یٰسین،آیت48,47 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جب ان سے فرمایا جائے اللہ کے دئیے ( ہوئے مال) میں سے کچھ اس کی راہ میں خرچ کرو تویہ کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم اسے کھلائیں جسے اللہ چاہتا تو کھلا دیتا،تم تو نہیں مگر کھلی گم راہی میں اور کہتے ہیں کب آئے گا وہ وعدہ اگر تم سچے ہو۔‘‘
     سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
    ’’ جب آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر 3چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے: ایک صدقہ جاریہ کا، دوسرے اس علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد کا جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘ (مسلم) ۔
    حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا:
    ’’ کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیت میں بیچ بوئے پھر اس میں سے پرندہ یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
     اس کے ساتھ ایسے کام مثلاًکوئی پانی کا کواں کھودا ہو اور لوگ اس میں سے پانی کا استعمال کرتے ہوں یا راستہ ہموار کیا ہو یا کوئی مسجد کی تعمیر کرائی ہو یا اس میں حصہ ڈالا ہو وغیرہ وغیرہ تو یہ بھی بہت ہی بڑے اجر والے کام ہیں جو انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کو نفع پہچاتے رہتے ہیں۔
     غرض یہ ہے کہ اس امر میں اب شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ عبادت صرف نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کا نام نہیں بلکہ ہر سانس پر، ہر قدم اور ہر معاملہ میں اطاعت الٰہی کا نام ہے اور اطاعت الٰہی میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں۔ حقوق اللہ کے معاملہ میں حقوق العباد کی فہرست بہت طویل ہے۔ کہیں انسان کی اپنی ذات کے حقوق ہیں، کہیں والدین کے حقوق ہیں، کہیں اساتذہ کے حقوق ہیں، کہیں رشتہ داروں کے حقوق ہیں، کہیں دوستوں کے حقوق ہیں، کہیں ہمسائیوں کے حقوق ہیں اور کہیں اہل علم کے حقوق ہیں۔ یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق ہیں اور انہی حقوق کی کماحقہ ادائیگی پر معاشرہ کی صحت اور حسن کا دارومدار ہے۔ حقوق اللہ کے مقابلے میں حقوق العباد کی زیادہ اہمیت ہے کیونکہ یہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ ایک حدیث میں نبی محترم نے فرمایا: ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ وہ آدمی ہے جو اس کے کنبے (مخلوق) کے ساتھ نیکی کرے۔ خدمتِ مخلوقِ خدا کی ذریعہ دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے۔ ایک بہترین مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کریں جو دوسرے انسانوں کیلئے مفید اور نفع بخش ہوں۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتابلکہ اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاں بھی اہم رتبہ حاصل کرلیتا ہے۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم، خوش اخلاقی، غم خواری و غم گساری خیرو بھلائی، ہمدردی، عفو و درگزر، حسن سلوک، امداد و اعانت اور خدمت خلق ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات ہیں کہ جن کی بدولت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے۔
    اللہ تعالی ہمیں اپنے مخلوق کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین۔

مزید پڑھیں: - - - -اسلام میں زیادتی کی سزا کیا ہے؟

شیئر: