فیصل آباد کا سیریل ’پیزا ڈکیت گینگ‘ جو پولیس کے شکنجے میں نہ آ سکا
فیصل آباد کا سیریل ’پیزا ڈکیت گینگ‘ جو پولیس کے شکنجے میں نہ آ سکا
جمعرات 14 نومبر 2024 7:37
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
کاشف نامی ڈیلیوری بوائے کو مزاحمت پر فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا (فائل فوٹو: ائی سٹاک)
’اس وقت شہر میں ایسے کئی گروہ متحرک ہیں جو پیزا لُوٹ لیتے ہیں۔ ایک پیزا کھانے سے تو ان کی بھوک بھی نہیں مٹتی ہوگی لیکن ہماری نوکری اور جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‘
یہ کہتے ہوئے پیزا ڈیلیوری بوائے عثمان احمد جذباتی ہو گئے۔ عثمان احمد فیصل آباد کے رہائشی ہیں اور وہ پیزا ڈیلیوری کا کام کر کے اپنا گزر بسر یقینی بنا رہے ہیں لیکن وہ اب ایسے ڈکیت گینگز کی سرگرمیوں کی وجہ سے پریشان ہیں جو پیزا لُوٹتے ہیں۔
پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں پیزا لُوٹنے والے یہ گینگز ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں جو ایک مخصوص طریقۂ واردات استعمال کرتے ہوئے پیزا ڈیلیوری بوائز سے گن پوائنٹ پر پیزا لُوٹ رہے ہیں۔
ان واقعات کے دوران ایک قتل بھی ہوچکا ہے۔ گذشتہ چند روز کے دوران ایسے دو واقعات پولیس میں رپورٹ ہوئے ہیں، تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔
پیزا ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے کے بعد ڈلییوری بوائز اپنی ملازمت چھوڑنے کے بارے میں بھی سوچنے لگے ہیں۔ اس حوالے سے فیصل آباد پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس مبینہ ‘پیزا ڈکیت گینگز‘ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ ’پیزا ڈکیت گینکز‘ کی ماضی میں وارداتیں
فیصل آباد کے علاقے منصور آباد گلی نمبر 17 کے رہائشی 45 سال کے کاشف ولد محمد اشرف مقامی پیزا شاپ پر کام کرتے تھے۔
کاشف کے لیے 24 دسمبر 2023 کا دن موت کا پیغام لے کر آیا۔ فیصل آباد پولیس کے مطابق کاشف کو صدر کے علاقہ میں پیزا ڈیلیوری کا آرڈر ملا۔ وہ جب پیزا ڈلیوری کے لیے بتائے ہوئے پتے پر پہنچے تو پانچ ملزموں نے انہیں پیسے دینے سے انکار کر دیا۔
فیصل آباد پولیس کے مطابق جنید نامی ملزم نے اپنے دیگر چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر 3700 روپے کا پیزا چھیننے کی کوشش کی، تاہم کاشف کی مزاحمت پر ملزموں نے فائرنگ کر دی۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد اجمل نے اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ’گولی لگنے سے کاشف شدید زخمی ہوگئے جنہیں تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔‘
اسی پریس کانفرنس میں پولیس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’اس واقعے سے قبل بھی دو مختلف واقعات میں پیزا چھیننے کی کوشش ہوئی تھی۔‘
فیصل آباد پولیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس نے اس واقعے میں ملوث ملزموں کو رواں سال کے آغاز میں ہی گرفتار کر لیا تھا۔‘
ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے پریس کانفرنس میں مزید بتایا کہ ’دو ماہ میں پولیس نے جنید نامی مرکزی ملزم کو گرفتار کیا جس نے مزید چار ملزموں کے نام بھی بتائے۔‘
فیصل آباد پولیس کا کہنا ہے کہ جنوری 2024 میں بھی دو ایسے گینگز کو ان کے سرغنہ سمیت گرفتار کیا گیا ہے جو ڈیلیوری بوائز کو لُوٹنے میں ملوث تھے۔
تھانہ سرگودھا روڈ کی پولیس نے مختلف شکایات پر کارروائی کرتے ہوئے چار ایسے ملزموں کو گرفتار کیا تھا جو پیزا ڈیلیوری بوائز کو گن پوائنٹ پر لُوٹ کر فرار ہو جاتے تھے۔ پیزا ڈکیتی کے حالیہ واقعات
رواں سال ایسے دو گروہوں کے خلاف دو مختلف مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ پہلا واقعہ 23 اکتوبر 2024 کو پیش آیا جس میں محمد ماجد نامی ڈیلیوری بوائے سے اسلحے کے زور پر 1800 روپے کے دو پیزے چھینے گئے۔
اس کی شکایت یوسف ٹاؤن کے رہائشی محمد ماجد رفیق نے تھانہ صدر میں دو نامعلوم ملزموں کے خلاف درج کروائی۔
دوسرا واقعہ بھی تھانہ صدر کی حدود میں ہی پیش آیا۔ یکم نومبر 2024 کو عثمان احمد نامی ڈیلیوری بوائے کو لُوٹا گیا۔ اس واردات میں ڈکیتوں نے چار پیزے لُوٹے۔
دونوں مقدمات تھانہ صدر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 392 کے تحت درج ہیں۔ دفعہ 392 کے تحت جُرم ثابت ہونے پر مجرم کو کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال کی سزا دی جا سکتی ہے۔ سزا کی میعاد کا تعین جُرم کی سنگینی کی نوعیت جاننے کے بعد کیا جاتا ہے۔
دونوں مقدمات تھانہ صدر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 392 کے تحت درج ہیں۔ دفعہ 392 کے تحت جُرم ثابت ہونے پر مجرم کو کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال کی سزا دی جا سکتی ہے۔ سزا کی میعاد کا تعین جُرم کی سنگینی کی نوعیت جاننے کے بعد کیا جاتا ہے۔
فیصل آباد پولیس کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسے واقعات گذشتہ کئی ماہ سے ہو رہے ہیں اور اس سلسلے میں پولیس کارروائی بھی کر رہی ہے۔‘
’حالیہ واقعات کے بعد پولیس متحرک ہوگئی ہے اور ملزموں کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔ جب پولیس کسی حتمی نتیجے پر پہنچے گی تب ہی ہم اس حوالے سے مزید تفصیلات بتا سکتے ہیں، تاحال یہی معلوم ہوا ہے کہ پیزا ڈیلیوری بوائز کو تنگ کیا جا رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ملزموں کے لیے پیزا ڈیلیوری بوائز آسان ہدف ہیں جنہیں نہتا ہونے کی وجہ سے لُوٹا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح سے نو سربازی ہے۔ پہلے آپ آرڈر دیتے ہیں اور آرڈر آنے پر آپ پیزا چھین لیتے ہیں تو یہ نوسربازی بھی ہوئی۔
فیصل آباد پولیس کے ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ’پولیس ان تمام وارداتوں پر نظر رکھ رہی ہے اور امید ہے یہ نوسرباز جلد گرفتار ہو جائیں گے۔‘ سیریل ’پیزا ڈکیت گینگز‘ کا طریقۂ واردات
ماجد رفیق اپنے روزمرہ کے اخراجات پیزا ڈیلیوری کا کام کر کے پورا کرتے ہیں، تاہم وہ پیزا لُوٹے جانے کی وارداتوں سے پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کے ساتھ اب تک چار بار ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے۔ آخری بار ان کے ساتھ فیصل آباد کے دانیال ٹاؤن میں واردات ہوئی تھی۔‘
انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ ’میں ایک دکان پر پیزا ڈیلیوری کا کام کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ بھی محنت مزدوری کرتا ہوں لیکن پیزا ڈیلیوری سے پیسے اچھے بن جاتے ہیں اس لیے یہ کام بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ میں روز اپنے علاقے میں پیزا ڈیلیور کرتا ہوں۔‘
’مجھے دکان کی جانب سے ایک پتے پر بھیجا جاتا ہے جس کے بعد بعض اوقات انہیں صارفین کی جانب سے اضافی پیسے بھی دیے جاتے ہیں۔‘
ماجد رفیق نے کہا کہ ’یہ کام اس لیے بھی بہتر ہے کہ ہمیں ٹِپ مل جاتی ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ہمیں یوں لُوٹنے کا عمل شروع ہو جائے گا۔‘
عثمان احمد ایک معروف کمپنی میں پیزا ڈیلیوری بوائے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں کال سینٹر، ویب سائٹ، ایپلیکیشن یا ڈیوائس پر مختلف آرڈرز ملتے ہیں۔‘
’اسی طرح ایک آرڈر کہکشاں کالونی سے آیا۔ ہم پہلے آرڈر کی تصدیق کرنے کے لیے کمپنی سے ایک سلپ وصول کرتے ہیں تو میں نے بھی ایسا ہی کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں آرڈر کی تصدیق کے بعد دیے گئے پتے پر روانہ ہوا، تاہم پتے پر پہنچنے سے قبل ہی مجھے ایک فون کال موصول ہوئی۔‘
’مجھے فون پر بتایا گیا کہ ہمارے مہمان آئے ہوئے ہیں اس لیے ہم آپ سے راستے میں ہی پیزا لے کر پیسے دے دیں گے۔ میں نے ہامی بھر لی، تو موٹرسائیکل پر سوار دو لڑکے آئے اور انہوں نے میرے قریب پہنچتے ہی پستول لوڈ کی اور دھمکی دینے لگے۔‘
عثمان احمد کے مطابق انہوں نے مجھ سے موبائل اور چار پیزے چھین لیے۔ انہوں نے کہا کہ ’وہ اس سے قبل بھی دو بار ایسی وارداتوں کا شکار ہو چکے ہیں۔‘
’ہمارے کئی لڑکوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔ ہمارے کئی رائیڈرز اور ڈیلیوری بوائز کو لُوٹتے ہوئے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا چکا ہے۔‘
پیزا ڈکیت گینگز پہلے کسی دکان یا معروف کمپنی کو پیزے کا آرڈر دیتے ہیں اور جب ڈیلیوری بوائے پیزا دینے آتا ہے تو اس سے تمام پیزے چھین لیے جاتے ہیں۔ پیزا ڈکیتوں کی نفسیات
محمد ماجد رفیق اس وقت خوف میں مبتلا ہیں۔ ان کے ساتھ جب ڈکیتی کی واردات ہوئی تو سب سے پہلے انہوں نے وہ دکان چھوڑ کر کسی اور مقام پر دوسری کمپنی کے ساتھ کام شروع کردیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ واقعات ایک تسلسل سے پیش آرہے ہیں اور میں جس علاقے میں کام کرتا تھا وہاں تو کئی بار ہمارے ساتھ ایسا ہوچکا ہے اس لیے میں نے اپنی لوکیشن کے ساتھ ساتھ دکان بھی تبدیل کر لی ہے۔‘
ان کے مطابق ان کے لیے یہ کام کرنا آسان تو نہیں ہے لیکن وہ دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ یہاں سے اچھے پیسے کما لیتے ہیں۔
پیزا ڈیلیوری بوائز کے ساتھ ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے کے بعد فیصل آباد میں خوف کی فضا قائم ہوگئی ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کوئی ڈکیت محض چند سو روپے کا پیزا کیوں لوٹے گا؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے اردو نیوز نے پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز کی ڈائریکٹر پروفیسر روبینہ ذاکر سے رابطہ کیا۔
پروفیسر روبینہ ذاکر اس وقت ڈیپارٹمنٹ آف کریمنالوجی کی بھی سربراہ ہیں۔ ان کے مطابق یہ جرائم معمولی نوعیت کے ہیں، تاہم اگر ان میں ایک تسلسل پایا جا رہا ہے تو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسے جرائم میں ملوث افراد کے معاشی اور سماجی پس منظر کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔ ان جرائم میں اگر ایک ہی گروہ ملوث ہے تو بات پھر نفسیات کی طرف چلی جاتی ہے لیکن اگر اس میں مختلف گروہ ملوث ہیں تو بعض اوقات ایسے واقعات غیر ارادی طور پر بھی رونما ہو جاتے ہیں۔‘
پروفیسر روبینہ ذاکر نے مزید کہا کہ ’لوگ اکثر ایسے معمولی جرائم کے نتیجے کے بارے میں نہیں سوچتے کہ ان کا کیا اثر ہوگا؟ کیا ایسا کرنے سے مجھے فائدہ ہوگا یا نہیں؟ بس وہ فوری طور پر فیصلہ کر کے جُرم سرزد کر دیتے ہیں۔
’انہیں پھر یہ خدشہ بھی کم لاحق ہوتا ہے کہ معمولی جُرم ہے اور پکڑے جانے کا خطرہ بھی کم ہے۔ یوں یہ لوگ ایسی واردات کو ’جُرم‘ بھی تصور نہیں کرتے۔‘
اردو نیوز کے پاس دستیاب معلومات کے مطابق اب تک پیزا چوری کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں مختلف گروہ ملوث ہیں۔
اس حوالے سے پروفیسر روبینہ ذاکر بتاتی ہیں کہ ‘نوجوان اکثر رسک لینا اور معاشرتی اقدار کے خلاف جانا پسند کرتے ہیں اور انہیں اس طرح کے باغیانہ رویے میں خوشی محسوس ہوتی ہے جب کہ معاشرے میں نوجوانوں کے کئی ایسے گینگز بھی موجود ہیں جو صرف دوسروں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ان وارداتوں سے ڈیلیوری بوائز کی نفسیات متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے اور یہ واقعات اگر تسلسل کے ساتھ ہوتے رہے تو کوئی انتہائی قدم اٹھائے جانے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ان تمام پہلوؤں کو دیکھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ان ملزموں کو گرفتار کر کے ان کی ذہنی سطح کے بارے میں علم حاصل کیا جائے جب کہ ان کی عمر اور سماجی و معاشی پس منظر کے بارے میں معلوم کرنا بھی ضروری ہے۔‘