جتھوں کی حکمرانی یا قانون کی رٹ
***سجاد وریاہ***
گزشتہ دنوں پاکستان ملکی اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنارہا ،اس کی وجہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا جس میں عدالت عالیہ نے آسیہ مسیح کو رہا کرنے کا حکم دیا ۔اس وقت تحریک لبیک کے خادم رضوی نے اپنی جماعت کو حکم دیا کہ اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا جائے۔احتجاج کے نام پر شروع ہو نے والے اس تماشے نے دنگا فساد اور توڑپھوڑ کی شکل اختیار کر لی۔مولوی خادم رضوی اور پیر افضل قادری نے جج صاحبان اور جنرل باجوہ کے خلاف غیر مناسب زبان استعمال کی۔ان صاحبان ِعلم کی گفتگو اور دنیاوی معاملات میں فہم و فراست کا معیار دیکھتے ہوئے تو مجھے اپنے معاشرے کے زوال کے اسباب کی سمجھ آئی کہ جب ان جیسے رہنماوٗں کی اخلاقیات کا یہ معیار ہے تو عام مسلمان سے تو گلہ کرنا ہی ناجائز ہو گا۔ خادم رضوی نے اپنی پہچان ہی آسیہ مسیح کے کیس سے بنائی ہے۔انہو ں نے ممتاز قادری کی تحریک سے شہرت پائی۔خادم رضوی کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ اسلام امن کا پیغام ہے ۔کیا جن لوگوں کی دکانیں ،گاڑیاں اور کاروبار جلائے گئے اور لوٹے گئے ،وہ مسلمان نہیں تھے؟کیا وہ نبی محترم سے محبت نہیں کرتے تھے؟ تم لوگ نبی کی عزت و ناموس کے نام پر ہنگامے ،جلاؤگھیرائو اور توڑ پھوڑ کر کے نبی کی عزت و ناموس کا کیسا دفاع کر رہے تھے؟
جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ اس نازک موضوع پر ہر طبقے کو حساس اور محتاط ہو نا چاہیے۔مسیحی برادری اور دوسری اقلیتوں کو بھی پاکستان کے مسلمانوں کے اسلامی اور مذہبی عقائد کا احترام کرنا چاہیے۔ایک آسیہ مسیح کی لڑائی نے پوری پاکستانی قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔اس مسئلے کی خاطر کتنی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔سلمان تاثیر،شہباز بھٹی ،ممتاز قادری اور کئی جانیں معصوم لوگوں کی گئی ہیں دھرنوں اور احتجاجوں میں۔اربوں روپے کی املاک کا نقصان الگ ہے۔آسیہ مسیح جیسی عورتوں کو بھی عقل اور ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ہماری پوری قوم اور ریاست اس کی ایک بد زبانی کی سزا بھگت رہی ہے۔اگر آسیہ بے قصور ہے تو اسے رہائی ملنی چاہیئے لیکن ایسے لوگوں کو اس طرح کی شرارت اور لڑائی کا ذریعہ بننے میں احتیاط کرنا ہو گی۔
اب آتے ہیں اس معاملے پر کہ کیا قانون کی رِٹ اور ریاست کی عملداری ہو گی؟یا پھر جتھوں کی حکمرانی ہو گی؟ڈنڈا بردار جب باہر نکل آئیں ،ہر چیز تہس نہس کر دیں تو حکومت جا کر ان سے معاہدہ کر لے اور معافی مانگ لے؟حکومت کو کمزوری نہیں دکھانی چاہیئے، اپنی رِٹ قائم کرنا ہو گی ۔ہر صورت میں قانون و آئین کی بالا دستی قائم کرنا ہو گی ورنہ ریاست اور حکومت کا تصور ختم ہو جائے گا۔
تحریک لبیک سے مذاکرات کیے گئے ،اس میں کوئی بری بات نہیں ۔اس میں یہ حکمت شامل ہے کہ بڑے جانی نقصان سے بچا جا سکے۔برائی اس بات میں ہو گی کہ ان کے سامنے ریاست و حکومت کمزوری کا مظاہرہ کریں۔ان سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری کی گئی لیکن ان سے توڑ پھوڑ کاحساب ضرور لینا چاہئے۔ان پر مقدمات قائم کیے جائیں ان کو عدالتوں میں پیش کرنا چاہئے۔کیا یہ عدالتوں سے بالا تر ہیں؟ان کے سامنے قانون ریت کی دیوار کیوں ثابت ہو ؟
پیر افضل قادری،مولوی خادم رضوی اینڈ کمپنی سے میرا سوال ہے کہ کیا جب تم لوگ نہیں تھے اس وقت بھی نبی کی عزت و ناموس کا سورج اپنی پوری آب وتاب سے نہیں چمک رہا تھا؟میرے آقا کو آپکی گالم گلوچ اور جلائو گھیرائو کی بالکل ضرورت نہیں۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ’’اے میرے محبوب!آپ کاذکر بلند کر دیا ہے‘‘۔ خادم رضوی کے متعلق جو ایجنسیوں کی رپورٹس اخبارات میں شائع ہوئیں ،ان کے مطابق مولوی صاحب کے مالی معاملات کوئی شفاف نہیں ۔ان کے سابقہ حصہ دار اشرف جلالی صاحب سے پوچھیں کیسے یہ تحریک لبیک پر قابض ہو گئے؟میں سمجھتا ہوں اہلسنت والجماعت بریلوی مسلک پاک وہند کے پر امن ترین لوگ تھے اور ہیں۔انہوں نے کبھی بھی امن و امان کو ہاتھ میں نہیں لیا جبکہ یہ متشدد طبقہ اپنے ذاتی مفاد وتشہیر کے لیے نبی کا نام استعمال کر رہا ہے۔کیا وزیراعظم مسلمان اور رسول کا غلام نہیں؟اس کا عمل اس بات کی گواہی نہیں کہ وہ مدینہ پاک کی سر زمین پر ننگے پائوں حاضر ہو تا ہے؟کیا اسے خادم رضوی سے عشق نبی کا سرٹیفکیٹ لینا ہو گا؟کیا چیف جسٹس اور جنرل باجوہ کو ان حضرات سے سرٹیفکیٹس لینا ہو نگے؟
میں سمجھتا ہوں کہ کچھ بھی ہو حکومت کو اپنی رٹ حکمت سے بحال کرنا چاہئے۔فسادیوں پر کرپشن کے مقدمات درج کرنا چاہئیں،ان سے ان کے اثاثوں کا حساب لیا جائے۔ان سے تباہ ہونے والے کاروبار اور املاک کا نقصان پورا کیا جائے۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ بزر جمہرے ایک نئی راگنی پر ایک نیا راگ الاپ رہے ہیں کہ معاہدے پر عمل کرنا چاہئے۔معاہدے کے بعد کیسز نہیں کرنا چاہئیں۔اس طرح ریاست کا اعتبار قائم نہیں ہو گا ۔میں تو ان ’’دانشوروں‘‘ کی منافقانہ دانش پر حیران ہوں کہ کیا ان حکومتوں نے طالبان سے مذاکرات نہیں کیے تھے؟کیا ریاستِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان نے سوات میں طالبان سے معاہدہ نہیں کیا تھا؟کیا نواز حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے کئی دور منعقد نہیں کیے تھے؟پھر کیا ہوا ؟ طالبان کہاں ہیں؟کیا پھر آپریشن نہیں ہوئے اور ریاست کی رِٹ قائم نہیں ہوئی؟میرے خیال میں تو کئی قلمکار بغضِ عمران میں دھت ہیں اور ان کا مشن ہی مخالفت ہے،اگر اچھا بھی ہو رہا ہو تو بھی ان کی سانسیں پھولی رہتی ہیں اور ہر کام کی مخالفت کر نے کے لئے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
تحریک لبیک کے ساتھ معاہدے پرقائم رہتے ہوئے بھی حکومت اپنا کام جاری رکھ سکتی ہے۔مذہبی معاملات کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں،صرف انتظامی اور قانونی معاملات میں ان کی گرفت کی جائے۔ان بلوائیوں سے نقصان پورا کیا جائے۔ان کے رہنماؤں سے کرپشن اور بد زبانی کا حساب لیا جائے۔ان کی گرفت نہ کی گئی تو یہ ایک رسم چل پڑے گی ،ان فسادیوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ کو ئی بھی شعبہ لے لیں ،ادارے اور قانون چھوٹے اور شخصیات بڑی ہو چکی ہیں۔سیاسی جماعتیں ،مذہبی جماعتیں،جتھہ بردار گروپس ،سب ہیں کہ شخصیات کے گرد گھوم رہے ہیں ،جمہوری کہلانے والی شخصیات بھی اپنے کرپشن میں ڈوبے لیڈروں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ان شخصیات کے بتوں کو توڑا جائے اور قانون کی عملداری قائم کی جائے ۔الطاف حسین سے اس کا آغاز ہو چکا ہے ۔ریاست اور آئین کی رٹ ہی پاکستان کو روشن دریچے دکھا سکتی ہے۔