Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی ،ایرانی اور دیگر امور

رضوان السید ۔ الشرق الاوسط
(پہلی قسط)
ایرانی سمجھ رہے ہیں کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ سے ٹکر لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے امریکہ جیسے طاقتور ملک کے مقابلے میں اپنی جیسی ریاست کے حوالے سے اپنے مفادات کا محدود دائرے میں دفاع کر کے ٹرمپ کو لگام لگانے کی بساط بھر کوشش کی ۔ ایرانیوں سے تعلق رکھنے والے عراقیوں نے مجھے بتایا کہ ایران میں دو نہیں بلکہ 3فریق ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک ایران کے مذہبی رہنما کو کوئی ایک حل تجویز کرتا ہے ۔ پہلا فریق پاسداران انقلاب کا ہے جس کا کہنا ہے کہ ہمیں امریکہ کے خلاف ڈٹے رہنا ہے ، پسپائی اختیار نہیں کرنی ۔ یہ کہتے ہیں کہ بش اور اوبامہ کا دور ہمارے حل کی تائید کرتا ہے ۔ 2002ء سے 2005ء کے دوران فریقین کے درمیان صورتحال مشکل تھی ۔ ایرانیوں نے پہلے مکمل مخالفت کا مظاہرہ کیا پھر لاپروائی اور آخر میں عراق پر امریکی لشکر کشی قبول کر لی ۔ عراق پر لشکر کشی کے بعد جتنے لوگ عراق میں داخل ہو ئے خواہ وہ مسلح ہوں یا غیر مسلح وہ سب کے سب ایران کے حامی تھے ۔ بعض امریکہ کے ہمنواء بھی تھے ۔ پھر 2003ء سے 2006ء کے دوران عراق سے ٹیکنو کریٹس نکل گئے ۔ اس کے بعد امریکی اور ایرانیوں کے درمیان براہِ راست امور طے پانے لگے ۔اوبامہ انتظامیہ کو یہ تعاون ورثے میں ملا۔ ایرانیوں کو یقین ہو گیا کہ اوبامہ ایٹمی معاہدے کے بدلے ہر جگہ ایران کو فری ہینڈ دینے کیلئے تیار ہیں ۔ صدر ٹرمپ اب ایران سے چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرے ۔ پاسداران انقلاب کو اس میں کوئی قباحت نہیں لگتی البتہ اس کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ بیلسٹک میزائلوں اور پڑوسی ممالک میں مداخلت پر کوئی قدغن نہ لگائے ۔ ایرانی چاہتے ہیں کہ مذاکرات تک گومگو کی کیفیت برقرار رکھی جائے پھر ایرانی مذاکرات کے وقت غزہ ، یمن اور شام میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں ۔ پاسداران انقلاب میں سے ایک کا کہنا ہے کہ عراق میںہم نے اپنے اتحادیوں کے توسط سے ایوان صدارت ، ایوان وزارت عظمیٰ اور اسپیکر کے آئینی عہدے اپنے قبضے میں کر لئے ہیں۔زیادہ پُر اعتماد بننے کیلئے وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو بھی اپنے قبضے میں کرنا ہو گا ۔جہاں تک لبنان کا تعلق ہے تو وہاں کا صدر جمہوریہ اور اسپیکر ہمارے قبضے میں ہے ۔وزارت عظمیٰ کے منصب کو بھی اپنے زیر اثر لایا جا سکے گا۔ اگر ہمارے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو ہم عراق اور لبنان میں سارا کھیل بگاڑ سکتے ہیں ۔ 
جہاں تک دوسرے فریق کا تعلق ہے تو اس کا خیال یہ ہے کہ ایرانی لمبی مدت تک امریکہ سے ٹکر نہیں لے سکتے ۔بہتر ہو گا کہ عمانیوں اور اسرائیلیوں کے تعاون سے ٹرمپ سے مذاکرات کی کھڑکیاںکھلی رکھی جائیں ۔ ایرانی ، عراق اور لبنان میں اسرئیلیوں کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں شراکت قائم کئے ہوئے ہیں ۔اسی دوران ایرانی چین، روس اور ہندوستان کے توسط سے امریکی پابندیوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کے حربے بھی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ یہ کام پہلے یورپی ممالک کی مدد سے لینا چاہتے ہیں ۔ تیسرا فریق تاجروں ، سرمایہ کاروں اور تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے لوگوں کا ہے ۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ مسئلے کی جڑ امریکہ نہیں بلکہ خود ایران کا حکمراں نظام ، اس کے حریصانہ عزائم اور اس کی داخلہ و خارجہ پالیسیاں ہیں ۔ کافی عرصے سے یہ سب کچھ چل رہا ہے لہٰذا ٹھوس تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر بات نہیں بنے گی ۔ایران پرامریکہ اور اسرائیل کی جانب سے جو دبائو ڈالا جا رہا ہے اور جو ناکہ بندی ہو رہی ہے، اس سے اندرون ملک حکومت کے ساتھ عارضی ہمدردی پیدا ہو گی ۔ بہت سارے لوگ اس ماحول میں احتجاج اور بغاوت کے حوالے سے تردد سے کام لیں گے تاکہ خارجی دشمنوں کے مدد گاروں کی صف میں نہ شامل کر لئے جائیں ۔ ایرانی پالیسی کی مشکل یہ ہے کہ اس نے خطے اور دنیا بھر میں دشمن پیدا کر لئے ہیں ۔ دوستوں کو حریف بنا لیا ہے ۔ انتخابی نتائج کے باوجود عراق کے بیشتر شیعہ ایران کو پسند نہیں کرتے ۔ لبنانی شیعہ ایرانی مفادات کیلئے آلۂ کار بننا نہیں چاہتے ۔ پھر سوال یہ ہے کہ ایسے اسٹراٹیجک مفادات کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے جن سے ایرانی عوام کو فاقے کرنے پڑیں اور اندرون ملک ناحق کشیدگی کا ماحول برپا ہو۔
(باقی آئندہ )
 

شیئر: