Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جی20میں محمد بن سلمان کی شرکت کیا معنی رکھتی ہے؟

***عبدالرحمن الراشد***
ارجنٹائن میں’’ جی 20‘‘بین الاقوامی سیاسی سربراہ کانفرنس کا دوسرا نام ہے ۔یہ نام کے حوالے سے اقتصادی سربراہ کانفرنس ہے ۔ کام کے حوالے سے مشکل سیاسی مسائل کی گتھیوں اور افہام و تفہیم والی سیاسی کانفرنس ہے ۔ 
جنگ یمن اور جمال خاشقجی کے قتل کے باعث سعودی عرب جی 20کے ایجنڈے پر سرِ فہرست ہو گا ۔ کیا سعودی عرب نے اس میں شرکت کا معیار کم کرنے کا اہتمام کیا؟کیا سعودی ولیعہد کو اس کانفرنس میں نہیں جانا چاہئے تھا؟ہمارا خیال ہے کہ کئی ہفتے سے سعودی عرب کو جی 20میں شرکت سے روکنے کی پروپیگنڈہ مہم ناکام ہو گئی ۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس کانفرنس میں جانے سے روکنے کی کوشش فیل ہو گئی ۔ کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے ارجنٹائن اور اس سے قبل 4عرب ممالک کے دورے کر کے سعودی عرب کے مخالفین کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ سارا میدان ان کے ہاتھ آجائے ۔محمد بن سلمان نے چیلنجوں کے مقابلے سے منہ نہیں پھیرا ۔ بیشتر قیاس آرائیاں کرنیوالوں کا یہی خیال تھا کہ سعودی ولیعہد ارجنٹائن جانے سے گریز کریں گے مگر انہوں نے قیاس آرائیوں کے برعکس اقدام کیا ۔ وہ دیگر رہنمائوں سے قبل ہی ارجنٹائن پہنچ گئے اور پہلے سے تیار شدہ پروگرام کے مطابق جی 20جاتے ہوئے امارات ، بحرین ، مصر اور تیونس کا دورہ کر بیٹھے ۔ دیگر ممالک کے دورے ارجنٹائن سے سعودی عرب واپسی کے موقع پر کرینگے ۔ 
سعودی عرب جی 20میں اس شان سے شریک ہے کہ اس کا ایک نمبر بڑھ گیا ہے ۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ترکی گزشتہ جی20کے اجلاس میں سعودی عرب سے ایک نشست آگے تھا اب ایک نشست پیچھے ہو گیا ہے ۔ سعودی عرب نے یہ کامیابی قانونی ، اقتصادی ، تجارتی اور مالیاتی محاذوں پر ٹھوس اصلاحات کی بدولت حاصل کی۔علاوہ ازیں اتنا ہی نہیں ،سعودی عرب آئندہ برس ریاض میں جی 20کا میزبان بھی ہو گا ۔ یہ اطلاع سعودی عرب کو ارجنٹائن میں ہونیوالے جی20اجلاس میں شرکت سے محرومی کے کوشاں فریقوں پر کافی بھاری پڑ رہی ہے ۔ ایسا ملک جو آئندہ برس جی 20کا میزبان ہو اُسے الگ تھلگ کیونکر کیا جا سکتا ہے ۔ سعودی ولیعہد کو کمزور کیونکر بنایا جا سکتا ہے ۔ 
جی 20اقتصادی ، تجارتی اور مالی منڈیوں کی کانفرنس ہے مگر جی20کے رہنمائوں کی بیشتر ملاقاتوں کا محور سیاسی اختلافات سے نمٹنا ہوتا ہے ۔ روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین کا بحران، امریکہ کی جانب سے چین پر اپنے علاقائی سمندر سے آگے بڑھنے کا الزام، امریکی صدر پر یورپی ممالک کا دبائو ، یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی اور اس جیسے دیگر سیاسی اور مستقبل کے تجارتی امور کانفرنس کے ایجنڈے پر ہیں ۔ سعودی ولیعہد کے ساتھ یمن کا بحران کلیدی موضوع ہو گا ۔ سب چاہتے ہیں کہ یہ بحران ختم ہو مگر اس کا کوئی عملی حل نظر نہیں آرہا ۔ جہاں تک خاشقجی کے قتل کے واقعہ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بہت زیادہ چہ میگوئیوں کا امکان نہیں ۔ ترکی نے اسے سیاسی رنگ دینے اور قطری ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی سرتوڑ کوشش کی ،ناکامی اس کا نصیب بنی ۔ سعودی عرب نے ملزمان پر مقدمے کے حوالے سے جو اقدامات کئے ان سے ترک مساعی غیر موثر ہو گئیں ۔ سعودی عرب جی 20کے قائدین کو جنگ یمن کی بابت کس طرح مطمئن کریگا یہ ایک پیچیدہ سوال ہے ۔ برطانوی قیادت مسئلے کے حل میں اہم کردار ادار کر رہی ہے ۔ یمن کی سرکاری افواج الحدیدہ بندرگاہ کی ناکہ بندی کر چکی ہے ۔ الحدیدہ کے متعدد محلوں کو اپنے کنٹرول میں لے چکی ہیں ۔ سعودی عرب کو پتہ ہے کہ جنگ یمن پر اعتراض کرنیوالے ممالک یہ جنگ بند کرانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی متبادل حل نہیں ۔اگر حل یہ مان لیا جائے کہ اتحادی افواج یمن سے نکل جائیں تو یہ بڑا خوفناک مسئلہ پیدا کریگا ۔ کوئی بھی بڑی طاقت یمن اپنی فوج بھیجنے پر آمادہ نہیں لہٰذا حل یہی ہے کہ اتحادی افواج برق رفتاری سے فتحیاب ہو جائیں اور حوثیوں سمیت یمن کے تمام فریقوں کو سیاسی حل میں شریک کرلیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں