سعودی عرب سے شائع ہونے والے جریدے ”الریاض“ کا اداریہ
بہت سارے تصورات اس انداز سے پیش کئے جاتے ہیں کہ انکا اصل روپ اوجھل ہوجاتا ہے۔ انصاف ، آزادی اور انسانی حقوق کے تصورات پر یہ بات سب سے زیادہ صادق آتی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم کسی بھی اصطلاح کا تصور سمجھیں اور اسکا حدود اربعہ متعین کریں۔
انسانی حقوق کا تصور مختلف جہتوں اور فریقوں کی جانب سے مختلف انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ اس میں تشویشناک حد تک اختلاف نے لوگوں کے ذہنوں کو خراب کردیا ہے۔ بعض لوگ انسانی حقوق کا تصور اپنی آئیڈیالوجی کے مفاد میں پیش کررہے ہیں۔
کئی لوگ انسانی حقوق کا تصور سیاسی مزاج اور روایتی مفادات کے تناظر میں طے کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ افراد کی سطح پر ہی نہیں بلکہ اقوام و ممالک کی سطح پر بھی ہورہا ہے۔ انسانی حقوق کا تصور فلسفیانہ شرائط کے تحت عصر حاضر ہی میں سامنے آیا ہے۔یہ تصور پیش کرنے والے یہ سچائی پوری طرح سے نظر انداز کئے ہوئے ہیں کہ دین اسلام نے روا داری ، کشادہ ظرفی ، روحانی گہرائی اور کائنات سے متعلق اکائی کی بابت جو کچھ کہا اس حوالے سے اسلام ہی انسانی حقوق کا بانی مذہب ہے۔ اسلام نے اقوام و ممالک کے مفادات میں توازن پیدا کرتے ہوئے انسانی حقوق کا ایسا تصور دیا ہے جس کی نظیر دنیا کے کسی نظام میں نہیں ملتی۔
تعجب انگیز امر یہ ہے کہ جہاں کسی ملک میں کوئی بحران برپا ہوا وہاں انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والے اچانک ابھر آتے ہیں۔ میڈیا جانبدار ہوجاتا ہے اور اپنے مخصوص سیاسی اہداف کے حصول کے چکر میں اخلاقی ضابطوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار جہاں چاہتے ہیں انسانی حقوق کی تلوار مسلط کردیتے ہیں اور جہاں انکے مفادات نہیں ہوتے وہاں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر چپ سادھے رہتے ہیں۔
یورپی ممالک کی وحشیانہ لشکر کشی دوسری عالمی جنگ پر ہی ختم نہےں ہوئی۔ یہ بات اسکے باوجود بجا و برحق ہے کہ یورپی اقوام وحشیانہ سلوک سے دستبردار اور پوری دنیا کو اپنے زیر نگیں کرنے کے عزائم سے دستبردار ہونے کا اعلان کرچکی ہیں۔
عصر حاضر کی تمام تبدیلیاں ظاہر کرتی ہیں کہ خود سر طاقتوں کے سامنے عقل شکست کھاچکی ہے۔ اس آفت کا مقابلہ صالح فکری طوفان کے بل پر ہی کیا جاسکتا ہے۔